کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 59
ہے‘‘؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ دوسرے اصل کی معرفت: دوسرا اصل اس کا وہ دین ہے جس کے مطابق اسے عمل کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے دین کی معرفت کے ساتھ اس حکمت و رحمت اور بشری مصلحت کی معرفت بھی جو کہ اس دین میں موجود ہے حاصل کرے اور انہیں بگاڑ سے بچائے۔ کتاب و سنت کے مطابق دین اسلام میں جو شخص بھی بنظر غائر غوروفکر کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت میں دین حق وہی ہے۔ صرف اسی دین سے مخلوق کی مصلحتیں پوری ہوسکتی ہیں۔ آج کے مسلمانوں کے حالات دیکھ کر اگر ہم اسلام کا اندازہ لگانا چاہیں تو یہ بڑی نامناسب بات ہوگی۔ کیوں کہ مسلمان بہت سے معاملات میں کوتاہی کا شکار ہوچکے ہیں اور بڑے بڑے قابل پرہیز کاموں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض اسلامی ملکوں میں رہنے والا ہر فرد ایک غیر اسلامی ماحول میں رہ رہا ہے۔ الحمد للہ دین اسلام ان تمام مصلحتوں کو سمیٹے ہوئے ہیں جن کو گزشتہ ادیان نے سمیٹ رکھا تھا۔ اس طرح اسلام کو ایک امتیاز حاصل ہوگیا ہے۔ اور یہ ہر زمانہ، ہر جگہ اور ہر امت کے لیے قابل عمل بن گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ دین اسلام پر عمل کرنا کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی جگہ امت کی مصلحت کے خلاف نہیں، بلکہ اس کی بھلائی کا ضامن ہے۔ اس کا ہر گز یہ معنی نہیں کہ اسلام ہر زمان و مکان اور ہر امت کی چاہت کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ دین اسلام تو ہر نیک عمل کا حکم دیتا ہے اور ہر برے عمل سے روکتا ہے۔ اسی طرح وہ ہر عمدہ اخلاق کا حکم دیتا ہے اور ہر رذیل اخلاق سے روکتا ہے۔ یہ تیسرا اصل ہے، یعنی انسان کا اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل کرنا۔ اور یہ معرفت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، ان کے طریقۂ عبادت، اخلاق،طرز تبلیغ، جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ نیز حیات نبوی کے دوسرے گوشوں کے گہرے مطالعے سے حاصل ہوگی۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو نبی کے متعلق جانکاری اور ان کے اوپر اپنے ایمان میں زیادتی کا خواہش مند ہو اسے