کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 58
الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَ بَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَo} (البقرۃ: ۱۶۴)
’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات و دن کے آنے جانے میں اور جہازوں میں جو سمندر میں آدمیوں کے نفع کی چیزیں لے کر چلتے ہیں اور پانی میں جس کو اللہ نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو تروتازہ کیا اس کی موت کے بعد اور ہر قسم کے حیوانات اس میں پھیلا دئے، اور ہوائوں کے بدلنے میں اور ابر میں جو زمین و آسمان کے درمیان مقید رہتا ہے دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘
بندے کے لیے اپنے رب کی معرفت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی آیاتِ شرعیہ میں غوروفکر کرے یعنی ان وحیوں میں جو انبیاء و رسل علیہم السلام لے کر آئے تھے کہ ان میں کیسی کیسی عظیم مصلحتیں ہیں اور جو دنیا و آخرت میں مخلوق کی بقاء کا دارومدار ہیں۔ جب انسان ان آیات اور ان میں موجود علم و حکمت میں غور وفکر سے کام لے کر ان کے نظم و ضبط پر مطلع ہوگا اور انہیں بندوں کی مصلحت کے موافق پائے گا تو ان کے ذریعہ سے اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی ارشاد ہے:
{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo} (النساء: ۸۲)
’’کیا وہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہ کثرت اختلاف پاتے۔‘‘
ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل مؤمن کے دل میں اپنی ایسی معرفت ڈال دیتا ہے کہ گویا وہ اپنے رب کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جبرئیل نے جب پوچھا تھا کہ: ’’احسان کیا