کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 56
حصے کو کہتے ہیں جس سے کہ شاخیں پھوٹتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآئِ} (ابراہیم: ۲۴) ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے پاک کلمے کی کہ وہ مشابہ ہے ایک پاکیزہ درخت کے جس کی اصل اور جڑ خوب گڑی ہوئی ہو اور اس کی شاخیں اونچائی میں ہوں۔‘‘ ان تینوں ’’اصول‘‘ کے ذریعہ مؤلف رحمہ اللہ ان ’’اصول‘‘ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن کے متعلق انسان سے اس کی قبر میں سوال کیا جائے گا۔ یعنی تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟ اس مسئلے کو مؤلف علیہ الرحمہ نے سوال کے پیرایہ میں بیان کیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ انسان اس پر خصوصی توجہ دے۔ کیوں کہ ایک عظیم مسئلہ اور عظیم اصول ہے۔ فرماتے ہیں: ’’بے شک یہ تینوں اصول وہ ہیں جن کی معرفت انسان پر واجب ہے۔‘‘ وجہ یہ ہے کہ تدفین نیز دوست وا حباب کے چلے جانے کے بعد میت سے اس کی قبر میں انہیں تینوں اصول کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے، اسے بٹھائیں گے، اور اس سے پوچھیں گے: ’’تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون؟ ’’مؤمن ہوگا تو کہے گا: ’’میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد ہیں۔‘‘ اگر دین کے سلسلے میں شکوک و شبہات کا شکار یا منافق ہوگا تو کہے گا: ’’ہائے ہائے میں نہیں جانتا، لوگوں کو میں نے جوکہتے سنا تھا وہی کہتا تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی معرفت کئی وسائل سے حاصل کی جاسکتی ہے، مثلاً: اللہ کی مخلوقات میں غو روفکر کرکے۔ یہ غوروفکر اس کی معرفت تک لے جائے گی، ساتھ ہی اس سے اس کی عظیم بادشاہی، اس کی مکمل قدرت اور اس کی رحمت و حکمت کی معرفت بھی حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: