کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 52
جو نام رکھے ہیں اور جو خوبیاں اپنی ذات کے لیے بیان فرمائی ہیں ان میں اس کو منفرد جانا جائے۔ یعنی جن اسماء و صفات کا اللہ نے اپنے لیے اثبات کیا ہے ان کا اثبات کیا جائے اور جن کی نفی کی ہے ان کی نفی کی جائے۔ نہ تحریف ہو نہ تعطیل اور نہ ان کی کیفیت کے پیچھے پڑا جائے اور نہ ہی ان کی مثالیں پیش کی جائیں۔‘‘ یہاں پر مؤلف رحمہ اللہ کی مراد ’’توحید الوہیت‘‘ ہے جس میں مشرکین گمراہ ہوئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کی، ان کی جان ومال اور زمین و جائداد کو مباح فرمایا، ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرنا اور لونڈی غلام بنانا جائز قرار دیا۔ انبیاء و رسل نے عموماً توحید کی اسی قسم کے سلسلے میں اپنی قوم کے عقائد درست فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ} (النحل: ۳۶) ’’ہم ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجتے رہے ہیں کہ تم اللہ کی عبادت کرو۔‘‘ چنانچہ عبادت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے درست ہے۔ جس نے اس توحید میں کمی و بیشی کی وہ ’’توحید ربوبیت‘‘ اور ’’توحید اسماء و صفات‘‘ کے اقرار کے باوجود مشرک کافر ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ایک شخص ’’توحید ربوبیت‘‘ اور ’’توحید اسماء و صفات‘‘ کا کامل اقرار کرتا ہے لیکن قبر پر جاتا اور صاحب قبر کی عبادت کرتا یا اس کے لیے نذر کے طور پر قربانی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ صاحب قبر کا تقرب حاصل کرسکے تو بلاشبہ وہ کافر مشرک ہے اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: { اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ} (المائدہ: ۷۲) ’’بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ شریک قرار دے گا تو اس پر اللہ جنت کو حرام کردے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں ’’توحید‘‘ سب سے عظیم حکم ہے۔ کیوں کہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر پورے دین کا دارومدار ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید ہی