کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 50
وَاَعْظَمُ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہِ التَّوحِیْدُ وَہُوَ: اِفْرَادُ اللّٰہِ بِالْعِبَادَۃِ۔ سب سے عظیم حکم جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ ’’توحید‘‘ ہے۔ اور توحید یہ ہے کہ عبادت کے ذریعہ اللہ کو یکتا کیا جائے۔ ………………… شرح ………………… ’’توحید‘‘ لغوی طور پر وَحد یُوَحِّدُ کا مصدر ہے۔ یعنی چیز کو ایک کرنا اور ایک جاننا۔ ’’توحید‘‘ نفی اور اثابت کے ذریعہ ہی متحقق ہوسکتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس ذات کو ایک کیا گیا ہو اور ایک جانا گیا ہو اس کے غیر کے لیے ہر حکم کی نفی کردی جائے اور صرف اسی ذات کے لیے حکم کا اثبات کیا جائے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: ’’انسان کی توحید مکمل صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جبکہ وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔‘‘ چنانچہ گواہی دینے والا اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک کے لیے معبودیت اور الوہیت کی نفی کر دیتا ہے اور اس کو صرف اللہ واحد کے لیے ہی ثا بت رکھتا ہے۔ ’’توحید‘‘ کی اصطلاحی تعریف مؤلف رحمہ اللہ نے یوں کی ہے: ’’ توحید یہ ہے کہ عبادت کے ذریعہ اللہ کو یکتا کیا جائے۔‘‘ یعنی تم صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نہ کسی نبی و رسول کو شریک کرو نہ کسی مقرب فرشتے کو، نہ کسی رئیس کو، نہ کسی بادشاہ کو، اور نہ ہی کسی مخلوق کو۔ بلکہ تم اپنی عبادات کے ذریعہ اس کو تنہا جانو، اسی سے محبت کرو، اسی کی تعظیم کرو، اسی سے چاہو اور اسی سے ڈرو۔ ’’توحید‘‘ سے شیخ رحمہ اللہ کی مراد وہ ’’توحید‘‘ ہے جس کو برپا کرنے کے لیے انبیاء و رسل بھیجے گئے تھے۔ اور یہ وہی ’’توحید‘‘ ہے جس کی وجہ سے انبیاء کی راہوں میں قوموں کی طرف سے روڑے اٹکائے گئے تھے۔ ’’توحید‘‘ کی ایک اور عام تعریف بھی ہے، وہ یہ ہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں میں ایک جاننا جو چیزیں اسی کے ساتھ مخصوص ہیں۔‘‘