کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 49
’’میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ مصنف کی مراد یہ ہے کہ ’’توحید‘‘ بھی عبادت کا ایک مفہوم ہے۔ ورنہ ’’عبادت‘‘ کا معنی اور جن مفاہیم پر ’’عبادت‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے تمہارے سامنے آچکا ہے۔ اور یہ بات بھی آچکی ہے کہ صرف’’عبادت‘‘ توحید سے زیادہ عام مفہوم رکھتی ہے۔ ’’عبادت‘‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی: ’’تکوینی عبادت‘‘ یہ عبادت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تمام مخلوق کرتی ہے کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق: {اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا} (مریم: ۹۳) ’’جتنے بھی کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ کے روبرو غلام اور عبادت گزار ہو کر حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ چنانچہ یہ عبادت مؤمن کو بھی شامل ہے اور کافر کو بھی، نیک کو بھی اور بد کو بھی۔ دوسری: ’’شرعی عبادت‘‘ عبادت شرعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مشروع کردہ احکام کے سامنے جھک جائے۔ یہ عبادت ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور انبیاء و رسل علیہم السلام کے لائے ہوئے احکام کی اتباع کرتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا} (الفرقان: ۶۳) ’’رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین میں عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔‘‘ عبادت کی پہلی قسم کے سلسلے میں انسان قابل تعریف نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ اس کا اپنا فعل نہیں۔ البتہ اچھے حالات پر انسان کا شکر گزاری کرنا، مصائب پر صبر کرنا ضرور قابل تعریف ہے۔ جبکہ دوسری قسم کی عبادت کے سلسلے میں انسان یقینا تعریف کا مستحق ہے۔ ٭٭٭