کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 47
’’حنیفیت‘‘ اس طریقہ کو کہتے ہیں جو شرک سے پاک اور للہیت پر مبنی ہو۔
یعنی ان کا وہ دینی طریقہ جس کے مطابق وہ عمل پیرا تھے۔
یعنی ابراہیم خلیل الرحمن علیہ الصلاۃ والسلام ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{وَ اتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًاo} (النساء: ۱۲۵)
’’ اللہ نے ابراہیم کو خالص دوست بنایا تھا۔‘‘
ان کی کنیت ’’ابو الأنبیاء‘‘ ہے۔ قرآن شریف میں ان کے طریق کار کاتذکرہ بار بار آیا ہے تاکہ اس طریقہ کی اقتداء کی جائے۔
’’عبادت‘‘ کا عام مفہوم یہ ہے کہ محبت اور تعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے انکساری کرنا، اور وہ اس طرح کہ اس کی طرف سے بھیجی گئی شریعت کے مطابق اس کے احکام کی پابندی کی جائے اور ممنوعات سے بچا جائے۔
عبادت کے خاص اور تفصیلی مفہوم کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’عبادت ایک وسیع مفہوم ہے جس کے اندر خوف، خشیت، توکل، نماز، زکوٰۃ، روزہ وغیرہ اسلامی احکام جیسے تمام اقوال و اعمال ظاہری و باطنی آجاتے ہیں۔‘‘
’’خالص کرنا‘‘ صفائی کرنے کو کہتے ہیں۔ اور یہاں یہ مراد ہے کہ انسان اپنی عبادت سے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کا قصد کرے اور اس کے دارالکرامت تک پہنچے ۔ یعنی اس کی عبادت اس طرح کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، نہ کسی مقرب فرشتے کو اور نہ کسی نبی رسول کو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo} (النحل: ۱۲۳)
’’پھر ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم کے طریقہ پر، جو کہ بالکل ایک طرف کے ہو رہے تھے، چلیے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘
اور فرمایا: