کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 46
سمجھ لو کہ جو ایسا کریں وہ ان سے محبت رکھتے ہیں اور ہر صورت میں ان کی دوستی کے خواہش مند ہیں اور یہ چیز (بلاشک) ایمان کے منافی ہے، اس سے ایمان بالکل ختم بھی ہوسکتا ہے یا اوج کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس ایسے لوگوں سے دشمنی رکھنا ایک مؤمن پر واجب، ان سے بغض رکھنا اور ان سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہیں چاہے وہ ان کے انتہائی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ یہ چیز ان کی بھلائی چاہنے اور ان کو حق کی دعوت دینے میں بھی مانع ہے۔ ٭٭٭ اِعْلَمْ اَرْشَدَکَ اللّٰہُ لِطَاعَتِہِ: اِنَّ الْحَنِیْفِیَّۃَ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ وَحْدَہُ مُخْلِصًا لَہُ الدِّیْنَ وَبِذَلِکَ اَمَرَ اللّٰہُ جَمِیْعَ النَّاسِ وَخَلَقَہُمْ لَہَا کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالَی: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} (الذاریات: ۵۶) وَمَعْنَی یَعْبُدُوْنِ یُوَحِّدُوْنِ۔ جان لواللہ تم کو اپنی اطاعت پر کار بند رکھے کہ حنفیت یعنی ملت ابراہیم یہ ہے کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو، اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے، اور اسی کا اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو حکم دیا ہے، اور اسی کے لیے ان کو پیدا فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اس اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (عبادت کریں) کا معنی (میری توحید کا اقرار کریں) ہے۔ ………………… شرح ………………… ’’علم‘‘ اور جانکاری پر پہلے گفتگو ہوچکی ہے لہٰذا اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ’’اطاعت‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم کردہ چیزوں پر عمل کرتے ہوئے اور ممنوعات کو ترک کرکے مقصود حاصل کیا جائے۔ یعنی راہ حق پر ثابت قدم رکھے۔