کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 45
’’اے ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو رفیق مت بنائو اگر وہ لوگ کفر کو بہ مقابلہ ایمان کے عزیز رکھتے ہوں اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جن میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، اور اللہ بے حکمی کرنے والوں کو مقصود تک نہیں پہنچاتا۔‘‘ {قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ} (الممتحنۃ: ۴) ’’تمہارے لیے ابراہیم میں اور ان لوگوں میں جو ان کے ساتھ تھے ایک عمدہ نمونہ ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو ان سے بیزار ہیں ہم تمہارے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض ظاہر ہوگیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو۔‘‘ اس لیے کہ اللہ سے دشمنی رکھنے والے سے دوستی اور اس کی خاطرداری اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے دل میں جو ایمان ہے وہ کمزور ہے۔ کیوں کہ یہ غیر معقول بات ہے کہ انسان کسی ایسے شخص سے محبت کرے جو اس کے دوست اور محبوب کا دشمن ہو۔ کافروں سے دوستی کی صورت یہ ہے کہ کفر وضلالت پر ہونے کے باوجود ان کی مدد اور دست گیری کی جائے۔ اور ان سے محبت بایں طور ہوگی کہ ایسے اسباب و وسائل اختیار کئے جائیں جن سے ان کی دلچسپی وابستہ ہے۔