کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 42
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَقٰتِلُوْہُمْ حَٰتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ} (بقرۃ: ۱۹۳)
’’ان سے اس حد تک قتال کرو کہ فساد (شرک) نہ رہے اور دین (خالص) اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
چونکہ اللہ کفر وشرک سے راضی نہیں اس لیے مؤمن کو بھی ایسے اعمال سے ہر گز راضی نہیں رہنا چاہیے۔ مؤمن تو ایسا ہوتا ہے کہ اس کی خوشی ناخوشی اللہ کی خوش و ناخوشی کے تابع ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اسی سے راضی ہو جس سے کہ اللہ راضی ہو اور اسی سے ناراض ہو جس سے کہ اللہ ناراض ہو۔ پس جب کفر وشرک اللہ کو پسند نہیں تو کسی مؤمن کے لیے رواہی نہیں کہ وہ ان پر اظہار رضا مندی کرے۔ شرک کا معاملہ بڑا اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ} (النساء: ۴۸)
’’بے شک اللہ اس بات کو نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا اور اس کے سوا اور جتنے گنا ہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا بخش دے گا۔‘‘
{اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ} (المائدہ: ۷۲)
’’بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو اللہ اس پر جنت کو حرام کردے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اللہ سے ملاقات اس حال میں کی کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس نے اس سے اس حال میں ملاقات کی کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کرتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘ (مسلم)
٭٭٭