کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 36
اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ {اَیَحْسَبُ الْاِِنسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰیo ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰیo فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰیo اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِ یَ الْمَوْتٰیo} (القیامۃ: ۳۶۔۴۰) ’’کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یوں ہی بے مقصد چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا یہ شخص (ابتداء میں محض) ایک قطرۂ منی نہ تھا جو (عورت کے رحم میں ) ٹپکایا گیا تھا۔ پھر وہ خون کا لوتھڑا ہوگیا۔ پھر اس نے انسان بنایا پھر اعضاء درست کئے۔ پھر اس کی دو قسمیں نر اور مادہ کردیں۔ تو کیا وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ مردوں کو زندہ کردے۔‘‘ عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر کہا جائے کہ بشریت کا وجود اس لیے ہوا ہے کہ وہ زندہ رہے اور دوسرے جانوروں کی طرح دنیا سے فائدہ اٹھا کر فنا ہوجائے، پھر اسے نہ دوبارہ اٹھنا ہے اور نہ حساب کتاب دینا ہے، تو یہ ایک ایسی بات ہوگی جو کہ حکمت الٰہی کے سراسر منافی ہے۔ بلکہ انسانیت کا وجود ہی کارِ بے کار کہلائے گا۔ اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اس مخلوق کو پیدا کرے، اس کی طرف رسولوں کو بھیجے، ان کے مخالفین و معارضین کے خون کو ہمارے لیے جائز کردے اور پھر نتیجہ کچھ بھی نہ ہو۔ اللہ عزوجل کی حکمت اس کو محال قرار دیتی ہے۔ یعنی اللہ عزوجل نے ہم امت محمدیہ کی طرف ایک رسول بھیجا ہے۔ جو ہمیں ہمارے رب کی آیات سناتا ہے، ہمارا تزکیہ کرتا ہے اور ہمیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ جس طرح کہ اس نے ہم سے پہلے کے لوگوں کی طرف رسول بھیجے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌo} (النور: ۳۵) ’’ کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو۔‘‘ یہ ضروری ہے کہ مخلوق کی طرف اللہ تعالیٰ انبیاء و رسل بھیجے تاکہ اتمام حجت ہوجائے اور