کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 35
دے کر ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے تاکہ بچے کا رزق، اس کی موت اور اس کا عمل لکھ دیاجائے اور یہ بھی نوٹ کر دیا جائے کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت۔‘‘
’’اللہ ہی ہمارا رازق ہے،‘‘ اس کے لیے عقلی دلیل یہ ہے کہ ہم آب و دانہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اور آب و دانہ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{اَفَرَاَیْتُمْ مَا تَحْرُثُوْنَo ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَo لَوْ نَشَائُ لَجَعَلْنَاہُ حُطَامًا فَظَلَلْتُمْ تَتَفَکَّہُوْنَo اِِنَّا لَمُغْرَمُوْنَo بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَo اَفَرَاَیْتُمُ الْمَائَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَo ئَ اَنْتُمْ اَنزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُوْنَo لَوْ نَشَائُ جَعَلْنَاہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَo} (الواقعۃ: ۶۳۔۷۰)
’’اچھا پھر یہ بتلائو کہ جو کچھ تم بوتے ہو اس کو تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اس پیداوار کو چورا چور کر دیں پھر تم متعجب ہو کر رہ جائو گے (اب کے تو) ہم پر تاوان ہی پڑ گیا بلکہ بالکل ہی محروم ہو کر رہ گئے۔ اچھا یہ بتلائو جس پانی کو پیتے ہو اس کو بادل سے تم برساتے ہو یا ہم برسانے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اس کو کڑوا کر ڈالیں سو تم شکر کیوں نہیں کرتے۔‘‘
ان آیات میں وضاحت ہے کہ آب و دانہ کی شکل میں جو رزق ہمیں ملتا ہے وہ اللہ عزوجل ہی کا دیا ہوا ہے۔
یہ وہ واقعیت اور حقیقت ہے جس کے لیے نقلی اور عقلی دونوں طرح کی دلیلیں موجود ہیں:
نقلی دلائل میں سے مندرجہ ذیل اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں:
{اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاَنَّکُمْ اِِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ} (المؤمنون: ۱۱۵۔۱۱۶)
’’کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یوں ہی مہمل پیدا کر دیا ہے اور یہ خیال کیا تھا کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جائو گے۔ اللہ بہت ہی عالی شان ہے