کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 34
وَالْاَرْضَ بَل لَا یُوقِنُوْنَo اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ اَمْ ہُمُ الْمُسَیْطِرُوْنَo} (طور: ۳۵۔ ۳۷) ’’کیا وہ لوگ آپ ہی آپ پیدا ہوگئے ہیں، یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں، یا انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ یقین نہیں کرتے۔ یا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہی داروغہ ہیں۔‘‘ پر پہنچے تو جبیر بن مطعم نے کہا: ’’لگتا تھا کہ میرا دل پرواز کر جائے گا، اور یہی وہ پہلا موقع تھا جب ایمان میرے دل میں جاگزیں ہوا۔ ‘‘ اس مسئلے کی قرآن و حدیث میں نیز عقلی بھی کافی دلیلیں ہیں، قرآن کی دلیلیں یہ ہیں: {اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُo} (الذاریات: ۵۸) ’’بے شک اللہ ہی روزی دینے والا قوت والا مضبوط ہے۔‘‘ { قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰہُ} (سبا: ۲۴) ’’کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین سے کون تم لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ کہہ دیجیے کہ اللہ۔‘‘ { قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ} (یونس: ۳۱) ’’کہہ دیجیے کہ تم لوگوں کو آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے یا کان اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کون نکالتا ہے اور کام کی تدبیر کون کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ اللہ۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی کافی دلیلیں ہیں۔ جہاں تک حدیث سے دلیل کی بات ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول پیش نظر رہنا چاہیے جو آپ نے رحم مادر میں موجود بچے کے بارے میں فرمایا ہے : ’’اس کی طرف چار باتوں کا حکم