کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 33
’’ اللہ نے تم لوگوں کو اور ان اعمال کو جو تم کرتے ہو پیدا کیا۔‘‘ { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنo} (الذاریات: ۵۶) ’’ میں نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر تاکہ میری عبادت کریں۔‘‘ عقلی دلائل کے لیے بھی قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَo} (الطور: ۳۵) ’’کیا وہ لوگ آپ ہی آپ پید ہوگئے ہیں یا وہی پیدا کرنے والے ہیں۔‘‘ یہاں پر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انسان خود اپنا خالق نہیں ہے کیوں کہ اپنے وجود سے پہلے وہ معدوم تھا، اور معدوم لاشیٔ ہے۔ جو لاشیٔ ہو وہ شیٔ کو وجود نہیں دے سکتی، اسی طرح نہ تو اس کو اس کے باپ دادا نے پیدا کیا ہے اور نہ اس کی ماں نے اور نہ کسی دوسری مخلوق نے۔ اور نہ ہی ایسا ہے کہ وہ بغیر موجد اور خالق کے یوں ہی وجود پذیر ہوگیا ہو۔ کیوں کہ ہر حادث کے لیے محدث کا ہونا لابدی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اس بے مثال نظام اور اس غیر منقطع تسلسل کے ساتھ مخلوق کا وجود بالکلیہ اس بات کی نفی کرتا ہے کہ ان سب کا وجود یوں ہی بغیر موجد کے ہوگیا ہو۔ جب یوں ہی وجود پذیر ہوجانے والی شیٔ کے لیے سرے سے کوئی نظام ہی نہیں ہوسکتا تو بھلا وہ شیٔ کس طرح اپنی بقاء اور ترقی پذیری کی حالت میں پابند نظام ہوسکے گی؟ چنانچہ ثابت ہوا کہ خالق، موجد اور محدث تنہا اللہ کی ذات ہی ہے، اس کے علاوہ نہ کوئی خالق ہے نہ کوئی حاکم، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ} (الاعراف: ۵۴) ’’سن لو پیدا کرنا اور حکم فرمانا اسی کا کام ہے۔‘‘ یہ نہیں معلوم کہ کسی مخلوق نے اللہ تعالیٰ کی پالنہاری اور پروردگاری کا انکار کیا ہو۔ اگر کیا بھی ہے تو ازراہ تکبرو غرور، جیسا کہ فرعون نے کیا تھا۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ حالتِ شرک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ طور کی قرأت کرتے ہوئے سن رہے تھے جب آپ ارشاد الٰہی: {اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ۔ اَمْ خَلَقُوْا السَّمٰوٰتِ