کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 28
………………… شرح ………………… یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مذکورہ چاروں مسائل کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (زمانے کی قسم) ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں زمانہ جو کہ خیر و شر واقع ہونے کا محل ہے، اس کی قسم کھائی ہے اور اس بات کو اجاگر کرنے کے لیے کھائی ہے کہ: انسان بلاشک و شبہ خسارے اور گھاٹے میں ہے، ہاں البتہ ان لوگوں کو خسارے کا کوئی اندیشہ نہیں جن میں یہ چار خوبیاں پائی جاتی ہوں: ایمان، عمل صالح، آپس میں حق کی تاکید کرتے رہنا اور صبر کی تاکید کرتے رہنا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہاد نفس کے چار درجات ہیں: ۱۔ انسان اپنے نفس کو ہدایت اور دین حق سیکھنے میں لگائے رہے، کیوں کہ بغیر اس کے نہ دنیا میں کامرانی اور خوش بختی ہے، نہ آخرت میں۔ ۲۔ ہدایت اور دین حق سیکھنے کے بعد نفس کو اس کے مطابق عمل کرنے میں لگائے رہے۔ ۳۔ اپنے نفس کو ہدایت اور دین حق کی دعوت و تبلیغ اور ناواقف کاروں کو اس کی تعلیم دینے میں لگائے رہے۔ ۴۔ راہِ دعوت و تبلیغ میں جو مشقتیں اور لوگوں کی طرف سے ایذائیں اُس کو پہنچیں ان پر اپنے نفس کو جمائے رکھے اور تمام مشقتیں اللہ تعالیٰ کی خاطر برداشت کرے۔ جب ان چاروں درجات کی تکمیل کرلے گا تو اس کا شمار اولیاء اللہ میں ہوگا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اس بات پر زمانے کی قسم کھائی ہے کہ ہر انسان ناکامی اور نقصان میں ہے چاہے اس کے پاس مال و اولاد کی کثرت ہو یا اس کی بڑی قدرو منزلت ہو۔ گھاٹے میں نہیں ہیں توصرف وہ جن کے اندر یہ چار خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ پہلی خوبی تو یہ ہے کہ اس کے پاس ’’ایمان‘‘ کی دولت ہو۔ ’’ایمان‘‘ ہر اس صحیح عقیدے اور نفع بخش علم کو کہتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہوتی ہو۔ دوسری خوبی ’’عمل صالح‘‘ ہے۔ عمل صالح ہر اس قول و فعل کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی