کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 27
’’بیشک ہم نے تمہارے اوپر دھیرے دھیرے کرکے قرآن اتارا۔‘‘ قرین قیاس تو یہ تھا کہ کہا جائے: ’’لہٰذا اپنے پروردگار کی نعمت کا شکر ادا کیجیے، ‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے یوں کہا ہے: {فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ} (الدھر: ۲۴) ’’پس اپنے رب کے حکم پر جمے رہیے۔‘‘ اس فرمان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو بھی قرآن کی دعوت کو لے کر اٹھے گا اس کے سامنے ایسے حالات آئیں گے جو صبر کا تقاضہ کریں گے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر غور کریں، قوم انہیں مار مار کر لہولہان کر دیتی ہے پھر بھی آپ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں: ’’اے اللہ میری قوم کو معاف کرکہ انہیں علم نہیں۔‘‘ لہٰذا داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے اور ثواب کی امید رکھے۔ صبر کی تین قسمیں ہیں: (۱) اطاعت الٰہی پر صبر، (۲) اللہ کی حرام کردہ چیزوں پر صبر ، (۳) اللہ کے ان فیصلوں پر صبر، جنہیں وہ صادر کرتا ہے، چاہے وہ فیصلے ایسے ہوں کہ ان میں بندوں کا کوئی دخل نہ ہویا ایذا رسانی اورسرکشی کی طرح ایسے فیصلے ہوں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ بعض بندوں کے ہاتھوں صادر کرتا ہے۔ ٭٭٭ وَالدَّلِیْلُ قَوْلُہ تَعَالَی: {وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ ئَ ا مَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوا بِالْحَقِّ وَتَوَا صَوْا بِالصَّبْرِo} اللہ کا یہ ارشاد دلیل ہے: ’’زمانے کی قسم بیشک انسان خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کئے اور آپس میں حق کی تاکید کرتے رہے اور آپس میں صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘