کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 26
’’آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے اس بات پر صبر کیا کہ وہ جھٹلا دئیے گئے ہیں اور انہیں ایذائیں دی گئیں یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد پہنچ گئی۔‘‘
جیسے جیسے ایذا رسانی میں اضافہ ہوتا ہے مدد الٰہی نزدیک آتی ہے۔ مدد الٰہی صرف یہی نہیں ہے کہ وہ انسان کی زندگی ہی میں واقع ہو اور وہ اپنی تبلیغ کا یقینی نتیجہ دیکھ لے۔ بلکہ نصرت الٰہی کا ظہور اس کی موت کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ایسا جذبہ پیدا فرمادے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ چنانچہ مبلغ اور داعی کی وفات کے بعد اس کی تبلیغ کی مقبولیت مبلغ کے لیے مدد الٰہی ہی کہلائے گی لہٰذا مبلغ کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ راہ تبلیغ میں مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ لگا رہے دین الٰہی کی دعوت عام کرنے میں جما رہے۔ نہ اعتراضات سے گھبرائے نہ ہی مشکلات کی پرواہ کرے۔ انبیاء و رسل علیہم السلام کا نمونہ سامنے رکھے۔ انہیں بھی قولی اور عملی طور پر پریشان کیا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{کَذٰلِکَ مَا اَتٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌo} (الذاریات: ۵۲)
’’اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو بھی رسول آیا تو انہوں نے کہا کہ جادو گر ہے یادیوانہ۔‘‘
اور فرمایا:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَo} (الفرقان:۳۱)
’’ ہم اسی طرح مجرم لوگوں میں سے ہر نبی کے دشمن بناتے ہیں۔‘‘
ان تمام کے باوجود ایک مبلغ اور داعی کو صبر کے ساتھ ان تمام حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو پیش نظر رکھنا چاہیے جو اس نے اپنے رسول کو دیا تھا:
{اِِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاo} (الدھر: ۲۳)