کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 24
سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo} (یوسف: ۱۰۸)
’’کہہ دیجیے یہ میری راہ ہے، میں اور جنہوں نے میری اتباع کی ہے اللہ کی طرف سوجھ بوجھ کے ساتھ دعوت دے رہے ہیں۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں۔‘‘
اس تبلیغ میں بصیرت اس وقت آسکتی ہے جبکہ مبلغ جانتا ہو کہ حکم شرعی کیا ہے؟ تبلیغ کیسے کی جائے؟ اور مخاطبین کس مزاج کے حامل ہیں؟
تبلیغ کے بہت سے میدان ہیں، جیسے دعوت الی اللہ کے لیے خطبوں اور تقریروں کی مجلس قائم کی جائے، مقالے اور مضامین لکھے جائیں، علمی حلقے بنائے جائیں، کتابیں تصنیف کی جائیں، دین کی نشرو اشاعت ہو، خاص محفلوں میں دعوت کا کام کیا جائے، انسان جب کسی دعوتی مجلس میں بیٹھا ہو تو یہ بھی دعوت کا موقع ہے۔ لیکن اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ بے زاری اور اکتاہٹ نہ ہونے پائے۔ اس کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ مبلغ اہل مجلس کے سامنے کوئی علمی مسئلہ رکھ دے اور بحث و مباحثہ ہو۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بحث ومباحثہ اور سوال و جواب کا دینی مسائل کے سمجھنے سمجھانے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات یہ بحث ومباحثہ اور سوال و جواب سادہ تقریروں اور خطبوں سے کہیں زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔
دعوت الی اللہ انبیاء و پیغمبر ان علیہم السلام اور اُن کے سچے پیروکاروں کا وظیفہ اور طریقہ رہا ہے۔ انسان جب اللہ کی توفیق و احسان سے اپنے معبود، اپنے نبی اور اپنے دین کی معرفت حاصل کر لیتا ہے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اللہ کی دعوت دے اور انہیں گمراہی سے نکالے اور خیر و بھلائی کی خوش خبری دے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے خیبر کے روز فرمایا تھا: ’’اطمینان سے کوچ کرو یہاں تک کہ دشمنوں کی زمین میں اتر جائو۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دینا اور انہیں اللہ کے ان حقوق سے آگاہ کرنا جو ان پر عائد ہوتے ہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں کسی