کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 223
وہ ان کے پاس کسی ایسے معاملہ کامقدمہ پیش کرنے میں جلد بازی نہ کرے جس کاانہیں حق نہ ہو یہاں تک کہ واضح ہوجائے کہ حق کیا ہے؟ کیوں کہ مسئلہ پر خطر ہے۔ (اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے ان کے حکام کی اصلاح فرمائے) ایسے ہی جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ ایسے حکام سے یہ مسئلہ بیان کردے تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے اور صحیح راستہ واضح ہو جائے۔ پھر جسے ہلاک ہونا ہے دلیل جان کر ہلاک ہو، جسے زندہ رہنا ہے دلیل جان کر زندہ رہے۔ اس کو بیان کرنے کے سلسلے میں ہرگز اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے اور نہ کسی سے ڈرے۔ عزت تو اللہ ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔
یعنی قانونِ الٰہی کے مطابق فیصلہ اور طاغوت کے انکار پر وجوب کی دلیل۔
دین کے دلائل واضح اور روشن ہوجانے کے بعددین پر کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اسی لیے اس کے بعد فرمایا ہے:
{قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيّ}
’’ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔‘‘
جب ہدایت اور گمراہی دونوں الگ الگ واضح ہوگئی ہیں تو ہرشخص چھان بین کی زحمت سے بچ گیا ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ وہ گمراہی کو چھوڑکر ہدایت اختیار کرے۔
اللہ تعالیٰ نے ’’ایمان باللہ‘‘سے پہلے’’کفر بالطاغوت‘‘ کو بیان فرمایا ہے۔ کیوں کہ شے کا کمال یہ ہے کہ ثوابت کے وجود سے پہلے رکاوٹیں ہٹادی جائیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:
’’التخلیۃ قبل التحلیۃ‘‘، یعنی ’’صفائی آرائش سے پہلے‘‘۔
یعنی اس کو مکمل طور پر گرفت میں لے لیا۔ پائدار حلقہ اسلام ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (فَقَدِ اسْتَمْسَکَ) فرمایا ہے، ’’تَمَسَّکَ‘‘ نہیں۔ کیوں کہ پہلے کامعنی دوسرے سے قوی ہے۔
٭٭٭
وَفی الْحَدِیْث: ((رَأْسُ الْاَمْرِ الْاِسْلَامُ وَعَمُوْدُہُ الصَّلاَۃُ وَذِرْوَۃُ سَنَامِہِ