کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 222
راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ یہی سمجھ کر اپناتا ہے کہ دوسرا پہلے سے افضل ہے۔ جوقوانین الٰہی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام کی ناقدری بھی نہیں کرتا، انہیں حقیر نہیں سمجھتا اور نہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ دوسرا قانون مخلوق کے لیے حکمِ الٰہی سے زیادہ اصلاح کاریا حکم الٰہی جیسا ہی ہے، بلکہ وہ قوانین الٰہی کے علاوہ کسی متبادل قانون کے مطابق فیصلہ صاحبِ معاملہ کے خوف یارشوت وغیرہ دنیاوی فائدے کی غرض سے کرتا ہے تو وہ فاسق ہے، کافر نہیں ہے۔ اس کے فسق کے درجات فیصلہ اور وسائل فیصلہ کے پیش نظر مختلف ہوں گے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے سلسلے میں جنہوں نے احبار ورہبان کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب بنا لیاتھا۔ فرمایا ہے کہ وہ دوطرح کے تھے: ایک تو وہ جنہیں علم تھا کہ احبار اور رھبان نے اللہ کے دین کو بدل دیا ہے۔ پھر وہ تبدیلی کے باوجودان کی اتباع کرتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ حرام حلال ہوگیا اور حلال حرام ہوگیا ہے۔ وہ اپنے سرداروں کی اتباع میں ایسا کرتے تھے، حالاں کہ انہیں معلوم تھا کہ انہوں نے رسولوں کے دین کی مخالفت کی ہے۔ پس یہ کفر ہے اور اس کو اللہ اور رسول نے شرک قرار دیا ہے۔ دوسرے وہ جن کااعتقاد وایمان حرام کو حلال کرنے اور حلال کو حرام کرنے کے سلسلے میں راست تھا۔ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں احبار ورہبان کی اطاعت کرتے تھے، جیسے کہ مسلمان نافرمانیاں کرتا ہے اور اعتقادرکھتا ہے کہ وہ نافرمانیاں ہیں۔ ایسے لوگ گنہ گار ہیں۔‘‘ وہ مسائل جو عام تشریع سمجھے جاتے ہیں، اور وہ متعین مسئلہ جس میں قاضی بغیر قانونِ الٰہی کے فیصلہ کرتا ہے ، دونوں میں فرق ہے، کیوں کہ وہ مسائل جو عام تشریع ہیں ان پر مذکورہ تقسیم لاگو نہیں ہوتی بلکہ وہ خالص پہلی قسم سے ہیں۔ کیوں کہ قانون ساز جس نے مخالفِ اسلام قانون بنایا ہے اس اعتقاد کے تحت بنایا ہے کہ وہ بندوں کے حق میں اسلام سے زیادہ اصلاح کرے گا اور اس سے زیادہ فائدہ پہنچائے گا۔ جیسا کہ اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ یہ مسئلہ یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کامسئلہ ایک ایسا عظیم مسئلہ ہے۔ جس کے ذریعہ آج کے حکام آزمائش میں مبتلا ہیں۔ لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ