کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 20
’’پھر اگر کسی چیز کے سلسلے میں تمہارا تنازعہ ہوجائے تو اگر تم لوگ اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لے جائو۔ یہ اچھا ہے اور بطور انجام بہتر ہے۔‘‘
مزید فرمایا:
{فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo} (النور:۶۳)
’’جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب پہنچ جائے‘‘
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جانتے ہو کہ فتنہ کیا ہے؟ فتنہ شرک ہے، ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول کو ٹھکرا کر دل میں ایسی گمراہی پیدا ہوجائے کہ جس کا نتیجہ ہلاکت ہو۔‘‘
’’اسلام‘‘ کا عمومی معنی یہ ہے کہ اللہ کے مشروع کردہ ان قوانین کے ذریعہ اس کی فرماں برداری کی جائے جو قوانین رسولوں کی بعثت سے لے کر روز قیامت تک کے لیے مقرر ہیں۔ اس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اکثر آیات میں فرمایا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ تمام شریعتیں اسلام ہی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
{رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ}(البقرۃ:۱۲۸)
’’اے ہمارے رب تو ہمیں اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی اپنی فرماں بردار ایک جماعت بنا۔‘‘
’’اسلام‘‘ کا خاص معنی یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ وہ تمام احکام ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دے کر مبعوث فرمائے گئے تھے۔ چوں کہ ان احکام نے تمام سابقہ دینوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ لہٰذا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے، وہ مسلم ہوگا اور جو مخالفت کرے، وہ مسلم نہ ہوگا۔ گویا رسولوں