کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 19
’’ یقین لانے والوں کے لیے زمین میں نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے اندر بھی۔ کیا تم لوگ بصیرت نگاہی سے کام نہیں لیتے۔‘‘
یعنی اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی معرفت کہ جو ہدایت اور دین حق وہ لائے ہیں انہیں قبول کرنا، ان کی دی ہوئی خبروں میں اُن کی تصدیق کرنا، آپ نے جس کا حکم دیا اس کو بجالانا، جس سے منع کر دیا (یا روک دیا) اس سے رک جانا، آپ کی لائی ہوئی شریعت کو ہی فیصل ماننا اور اس کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر دینا بندہ لازم سمجھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo} (النساء:۶۵)
’’پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرائیں، پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں، اور پورا پورا تسلیم کرلیں۔‘‘
مزید فرمایا:
{اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo} (النور:۵۱)
’’مومنین کی بات یہی ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف فیصلے کو بلائے جاتے ہیں تو کہیں ہم نے سن لیا اور حکم مان لیا اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
{فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo} (النساء:۵۹)