کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 16
تابع ہو کر آسکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ الٓرٰ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِo اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَوَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ o} (ابراہیم:۱۔۲)
’’قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اس غرض سے اتاری ہے کہ تم لوگوں کو ان کے رب کی اجازت کے بہ موجب تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائو۔ عزیز حمید (یعنی) اس اللہ کے راستے کی طرف کہ آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کے لیے ہے۔‘‘
’’الرحمان‘‘ اللہ عزوجل کا ایک خاص نام ہے جس کا اطلاق صرف اسی کی ذات پر ہوتا ہے۔ ’’رحمان‘‘ ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کے اندر وسیع رحمت پائی جاتی ہو۔
’’الرحیم‘‘ کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر بھی ہوتا ہے اور اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی ’’رحیم‘‘ کہا جاسکتا ہے ’’رحیم‘‘ اس ذات کو کہتے ہیں جس کی رحمت دوسرے تک پہنچتی ہو۔
گویا ’’رحمن‘‘ وسیع رحمت والا، اور ’’رحیم‘‘ دوسروں تک پہنچنے والی رحمت والا۔ اگر ’’رحمن‘‘ اور ’’رحیم‘‘ بیک وقت مذکور ہوں تو وہاں ’’رحیم‘‘ سے مراد ایسی ذات ہوتی ہے جو اپنی رحمت اپنے جس بندے تک چاہے پہنچاسکتا ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَرْحَمُ مَنْ یَّشَآئُ وَ اِلَیْہِ تُقْلَبُوْنَ o} (العنکبوت:۲۱)
’’وہ جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کے جانا ہے۔‘‘
٭٭٭