کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 99
ج:… اور تیسری شرط یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنے والا عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو (کہ یہ حدیث قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے) بلکہ احتیاط کا اعتقاد رکھتا ہو۔ [1] ۷۔ وہ مشہور تصنیفات جن میں احادیثِ ضعیفہ پائی جاتی ہیں : وہ کتابیں جو لکھی ہی اس غرض سے گئی ہیں کہ ان میں ضعیف احادیث کو جمع کیا جائے ان میں سے چند ایک یہ ہیں : ۱۔ ’’کتاب الضعفاء‘‘ : یہ امام ابن حِبّان کی تصنیف ہے۔ ۲۔ ’’میزان الاعتدال‘‘: یہ علامہ ذہبی کی علمی یادگار ہے۔ ان دونوں معروف کتب میں ان کے مؤلفین نے ان ضعیف احادیث کی مثالیں ذکر کی ہیں جو اپنے رواۃ کے ضعف کی وجہ سے ضعیف قرار دی گئی ہیں ۔ ب: …وہ کتابیں جن میں ضعیف احادیث کی کسی نوع کو جمع کیا گیا ہے: (یہ وہ کتابیں ہیں جن میں ان کے مؤلفین نے ضعیف حدیث کی کسی خاص نوع کو جمع کیا ہے) مثلاً مرسل، معلل اور مدرج احادیث وغیرہ۔ جیسے ۱۔ کتاب المراسیل: یہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ ۲۔ کتاب العلل: جس کے مصنّف امام دارقطنی رحمہ اللہ ہیں ۔[2]
[1] البتہ دیگر مواقع اور احکام اور اس پر عمل کے وجوب اور قیاس اور رائے پر اس کے بہرحال مقدم ہونے کی بابت ائمہ اربعہ کے ہاں کچھ مزید تفصیل ہے جس کو کتبِ اصول فقہ اور علوم الحدیث کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی قدرے مگر بے حد مختصر تفصیل علامہ اسعدی نے بھی لکھی ہے۔ شائقین حضرات وہاں مراجعت کر سکتے ہیں ۔ دیکھیں (علوم الحدیث، ص: ۱۲۷۔۱۲۸) [2] آخر میں اس بحث سے متعلقہ ایک اہم بات پر تنبیہ ضروری ہے جس کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں ۔ علامہ اسعدی لکھتے ہیں ۔ ’’یاد رہے کہ ’’ضعیف‘‘ اور ’’مُضَعَّف‘‘ میں فرق ہے کہ ضعیف کی تعریف تو معروف ہے، جب کہ مضعّف کا اطلاق وہاں ہوتا ہے جس کے ضعف میں اختلاف ہو۔ اس لیے اس سے احکام میں استدلال کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔ جیسے ضعفِ سند، اور ضعفِ متن دونوں الگ الگ چیزیں ہیں کہ ایک کے ضعف کی وجہ سے دوسرے کا ضعف اور ایک کی صحت سے دوسرے کی صحت ضروری نہیں ۔ الاّیہ کہ کسی محقق نے حدیث کی حیثیت بیان کرتے ہوئے ایسی تصریحات کی ہوں کہ جن کے بعد کوئی گنجائش نہ رہتی ہو۔ مثلاً کسی محدث کا یہ کہنا:لیس لہ الاسناد، ’’یثبت بہ‘‘ اور ’’لم یُروَ من وجہٍ صحیحٍ‘‘ وغیرہ اور یہی حکم اس صورت میں ہے جب کوئی محقق ضعیف حدیث کے سببِ ضعف کی وضاحت کردے‘‘۔(علوم الحدیث، ص: ۱۲۸۔ بتصرفٍ و زیادۃٍ بحوالہ قواعد الحدیث، ص: ۳۹، منہج النقد ص۲۹۰)