کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 98
(مولف موصوف علامہ محمود طحّان فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : (یہ حدیث اس لیے ضعیف ہے) کیوں کہ اس کی اسناد میں ’’حکیم اثرم‘‘ ہیں جن کو علماء نے ضعیف کہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تقریب التھذیب‘‘ میں ان کے بارے میں یہ کہا ہے، ’’ان میں نرمی اور لچک ہے۔‘‘
۵۔ خبر ضعیف کا حکم:
علمائے حدیث اور دوسرے علماء و فقہاء کے نزدیک ضعیف حدیث کی روایت جائز ہے۔ البتہ اگر ان کی اسانید کے ضعف کو بیان کرنے میں تساہل سے کام لیا جائے (اور ان کا ضعف بیان کیے بغیر ان کو روایت کر دیا جائے) تو ایسا کرنا دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔ بخلاف حدیث موضوع کے کہ اس کے ’’وضع‘‘ کو بیان کیے بغیر (اور اس کے موضوع ہونے کو بتلائے بغیر) اس کا روایت کرنا جائز نہیں ہوتا اور حدیث ضعیف کو اس کا ضعف بتلائے بغیر جن دو شرطوں کے ساتھ روایت کرنا جائز ہوتا ہے وہ یہ ہیں :
الف: …اس ضعیف حدیث کا تعلق عقائد جیسے صفاتِ باری تعالیٰ وغیرہ کے ساتھ نہ ہو۔
ب: …اور اگر وہ ضعیف حدیث احکام شرعیہ کو بیان کرتی ہو تو اس کا تعلق حلال حرام سے نہ ہو۔
یعنی وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب اور قصص وغیرہ میں اس کی روایت جائز ہے۔ اور وہ حضرات شیوخ و محدثین جن کی بابت ضعیف حدیث کی روایت کرنے میں تساہل برتنے کو روایت کیا گیا ہے، وہ سفیان ثوری، عبدالرحمن بن معدی اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں ۔[1] اور اس بات کو ملحوظ رکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ جب آپ احادیثِ ضعیفہ کو اسناد کے بغیر روایت کریں تو یوں نہ کہیں کہ، ’’قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم کذا ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا: ’’بلکہ ’’رُوِی عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم کذا‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کیا گیا ہے یا ’’بَلَغَنَا عنہ کذا‘‘ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پہنچی ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ کہیں تاکہ آپ اس حدیث کے ضعیف ہونے کو جاننے کے باوجود اس کو پورے وثوق اور یقین کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کریں ۔
۶۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم:
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ ’’فضائلِ اعمال‘‘ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ لیکن اس کی بھی تین شروط ہیں ۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ان تین شروط کی وضاحت ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں :
الف: …ضعیف حدیث کا ضعف بہت زیادہ نہ ہو۔
ب …: وہ حدیث کسی معمول بہ اصل (یعنی کسی شرعی قاعدہ یا کلیہ) کے تحت آتی ہو۔
[1] دیکھیں علوم الحدیث ص۹۹، الکفایہ ص۱۳۳۔۱۳۴ باب التشدّد فی احادیث الاحکام والتجوز فی فضائل الاعمال‘‘ (طحان)