کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 97
۳۔ سب سے کمزور ترین اسانید: گزشتہ میں ’’حدیث صحیح‘‘ کی بحث میں علماء نے بعض اَسناد کو ’’اَصَحُّ الْاَسَانِیْدِ‘‘ کا نام دیا ہے۔اس بنا پر ’’ضعیف‘‘ حدیث کی بحث میں بھی علماء نے بعض اسانید کو ’’اَوْھَی الاَسَانِیدِ‘‘ (کمزور ترین) سند کا نام دیا ہے۔ امام حاکم نیشا پوری رحمہ اللہ نے [1]’’کمزور ترین اسناد‘‘ کی بابت تفصیلی کلام کیا ہے اور بتلایا ہے کہ کمزور ترین اسانید میں سے بعض بعض صحابہ کے اعتبار سے ہیں ، جب کہ بعض میں یہ ازحد کمزوری بعض علامتوں اور شہروں کے اعتبار سے ہے۔ ہم امام حاکم کی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ اور دوسری کتب سے ’’کمزور ترین اسانید کو ذکر کرتے ہیں ، جن میں سے بعض یہ ہیں : الف: …حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کمزور ترین سند: اور وہ یہ ہے: ’’صدقۃ بن موسی الدقیقی، عن فرقدٍ السَّبَخِيِّ ، عن مُرّۃَ الطَّیِّبِ عن ابی بکر رضی اللّٰه عنہ ‘‘ [2] ب: …شامیوں کی کمزور ترین سند: ’’محمد بن قیسٍ المصلوب، عن عبید اللّٰه بن زَحْرٍ ، عن علیِّ بن یزید، عن القاسم عن ابی امامۃ‘‘[3] ج: …حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب سب سے کمزور اِسناد: ’’السدی الصغیر محمد بن مروان عن الکلبی ، عن ابی صالح عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہ ‘‘ (یہ اسناد اس قدر کمزور ہے کہ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اِسناد کے بارے میں کہتے ہیں ، ’’یہ اسناد ’’سلسلۃ الکذب‘‘ یعنی ’’جھوٹ کی ایک زنجیر‘‘ ہے ناکہ ’’سلسلۃ الذھب‘‘ (یعنی ’’سونے کی زنجیر۔‘‘)[4] ۴۔ ضعیف حدیث کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حکیم بن اثرم‘‘ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ حکیم اثرم ابو تمیمہ ھجیمی سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے حالت حیض میں بیوی کے پچھلے مقام میں صحبت کی یا کسی کاہن کے پاس گیا تو اس نے رب تعالیٰ کے اس دین کا انکار کیا جو اس نے (حضرت) محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل کیا ہے۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’ہم اس حدیث کو صرف ’’حکیم الاثرم عن ابی تمیمۃ الھجیميّ عن ابی ھریرۃ‘‘ کے طریق سے ہی جانتے ہیں ‘‘ یہ کہنے کے بعد فرماتے ہیں ، ’’امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اسناد کے اعتبار سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔‘‘[5]
[1] ’’معرفۃ علوم الحدیث ص۷۱۔۷۲‘‘ میں ۔ (طحّان) [2] معرفۃ علوم الحدیث ص۷۱۔۷۲ للحاکم رحمۃ اللہ علیہ (طحّان) [3] معرفۃ علوم الحدیث ص۷۱۔۷۲ للحاکم رحمۃ اللہ علیہ (طحّان) [4] دیکھیں تدریب الراوی ج۱ ص۱۸۱ (طحّان) [5] الترمذی مع شرحہ۱/۴۱۹۔۴۲۰ (طحّان)