کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 90
(۲) نقل: نقل کرنا، کتابت کرنا، کتاب کو حرف بہ حرف لکھنا۔ کہتے ہیں ’’نَسَخْتُ الکِتَابَ‘‘ ’’میں نے کتاب میں جو کچھ تھا اس کو لکھا۔ اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کتاب کو حرف بہ حرف نقل کیا جائے۔ پس (لفظِ نسخ کے ان دونوں لغوی معانی کے اعتبار سے) گویا کہ ناسخ یہ منسوخ کو زائل کر دیتا ہے یا ناسخ منسوخ کو ایک اور حکم کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔
ب: …نسخ کی اصطلاحی تعریف: ’’اصطلاحِ شرع میں نسخ شارع کے اپنے پہلے حکم کو اپنے دوسرے اور بعد والے حکم کے ذریعے اٹھا دینا (ہٹادینا اور ختم کردینا) ہے۔‘‘[1]
۲۔ فن ناسخ و منسوخ کی اہمیت، دشواری اور اس فن میں خصوصی امتیاز رکھنے والے مشہور علماء و فقہاء:
ناسخ اور منسوخ حدیث کی پہچان اور معرفت نہایت اہم اور دشوار علم ہے۔ (اس کی عظمت و اہمیت اور دشواری و پیچیدگی پر روشنی ڈالتے ہوئے) امام زہری فرماتے ہیں :
’’علماء اور فقہاء کو ناسخ اور منسوخ کی معرفت نے درماندہ اور عاجز کرکے رکھ دیا‘‘
جن علماء اور فقہاء کو اس فن میں خصوصی مرتبہ اور امتیازی شان حاصل ہوئی ان میں سرِ فہرست امام شافعی رحمہ اللہ کا نام نامی آتا ہے جنہیں اس فن میں یدِ طولی اور اپنے اقران و امثال اور متقدمین سب پر سبقت اصل تھی (گویا کہ اس میدان میں گوئے سبقت لے جانے کا سہرا امام شافعی رحمہ اللہ کے سر ہے)۔
(آئیے ! امام شافعی رحمہ اللہ کی علمی عظمت کو امام احمد رحمہ اللہ کے الفاظ میں سنتے ہیں )
ابن وارہ جب مصر سے علم کے حصول کے لیے امام احمد رحمہ اللہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کرنے حاضر ہوئے تو امام احمد رحمہ اللہ نے سب سے پہلا سوال یہ کیا:
’’کیا تم نے امام شافعی کی کتب لکھی ہیں ؟ (یعنی ان کو دیکھا اور ان کا مطالعہ کیا ہے اور کسی معتبر عالم سے ان کو پڑھا اور اس کی اجازت سے ان کو لکھا ہے) ابن وارہ نے کہا: نہیں۔‘‘
امام احمد نے فرمایا، تم نے (سخت) کوتاہی کی(امام شافعی تو علم کا سمندر تھے اور ان کے علمی مقام مرتبہ کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ) جب تک ہم ان کی خدمت میں بیٹھے نہ تھے ہم مجمل کو مفسّر سے اور ناسخ کو منسوخ سے نہ پہچان سکے۔‘‘
۳۔ ناسخ کو منسوخ سے کیسے پہچانا جاتا ہے؟
ناسخ حدیث کو منسوخ سے مندرجہ ذیل متعدد باتوں میں سے کسی ایک کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے:
الف: …یا تو خود جنابِ رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث کے ناسخ (یا منسوخ) ہونے کی صراحت کردی ہو۔ جیسے صحیح مسلم میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۱۷۷ (طحّان)