کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 88
ہو سکتا ہے کہ جو شخص کوڑھی کے پاس آتا جاتا ہو اس کو بھی رب تعالیٰ کی تقدیر سے یہ بیماری لگ جائے ناکہ اس چھوت چھات سے جس کی اسلام نفی کرتا ہے۔ مگر (بدقسمتی سے) وہ شخص اس گمانِ (فاسد اور بداعتقادی) میں مبتلا ہو جائے کہ اسے یہ بیماری اس کوڑھی کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے لگی ہے۔ یوں وہ چھوت چھات جیسے ایک ’’بد‘‘ عقیدے کے درست ہونے کا معتقد ہو جائے۔ اور (اس) گناہ میں جاپڑے (جس سے بچنے کا اسلام نے حکم دیا تھا) پس اس لیے ’’کوڑھی‘‘ سے دور رہنے کا حکم ہے تاکہ کوئی (ضعیف الاعتقاد) اس ’’بد‘‘ عقیدے میں نہ جاپڑے جو گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہے۔[1]
۵۔ جو شخص دو مقبول احادیث میں تعارض دیکھے اسے کیا کرنا چاہیے؟
ایسے شخص کو درج ذیل باتوں پر عملِ پیرا ہونا چاہیے!
الف: …اگر تو دو متعارض احادیث کو جمع کرنا ممکن ہو تو دونوں کو جمع کرنا متعین ہوگا اور دونوں پر عمل کرنا واجب ہوگا (اور ظاہری تعارض کو دیکھتے ہوئے کسی ایک حدیث کو چھوڑ کر دوسری پر عمل جائز نہ ہوگا)
ب: …اور اگر دونوں احادیث کو کسی صورت میں بھی جمع کرنا ممکن نہ ہو تو پھر:
۱۔ اگر تو کسی ایک حدیث کی بابت معلوم ہے کہ وہ ’’ناسخ‘‘ ہے ، تو اس حدیث کو مقدم کریں گے اور عمل بھی اس پر کریں گے۔ اور منسوخ حدیث کو چھوڑ دیں گے۔
۲۔ اور اگر ہمیں دونوں میں سے کسی کا ناسخ یا منسوخ ہونا معلوم نہ ہو تو ہم ترجیح کی صورتوں میں کسی ایک صورت کو اختیار کرکے، جن کی تعداد پچاس سے زائد بتلائی جاتی ہے، ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دیں گے پھر راجح حدیث پر عمل کریں گے(اور مرجوح حدیث کو چھوڑ دیں گے)۔
۳۔ اور اگر ہم کسی ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح بھی نہ دے سکیں اور بظاہر یہ ایک نادر صورت ہے۔ تو ہم دونوں پر عمل کرنے سے توقف اختیار کیے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارے سامنے کوئی وجہ ترجیح ظاہر ہو جائے (جس کے ذریعہ ہم ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دے کر راجح پر عمل کریں گے اور مرجوح پر عمل کو ترک کردیں گے)۔ [2]
۶۔ اس فن کی قدر و اہمیت اور اس میں مہارت حاصل کرنے والے سعادت مندوں کا بیان:
علوم حدیث میں یہ علم بے حد اہمیت کا حامل ہے اور سب علماء کو اس علم کی معرفت کی ازحد ضرورت و احتیاج ہے۔
[1] ان دونوں بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق کی ایک توجیہ علامہ ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہے اس کی تفصیل کے لیے دیکھیں ’’علوم الحدیث للاسعدی حفظہ اللہ ص۱۱۴‘‘
[2] وجوہِ ترجیح کتنی ہیں اور جمع کی کتنی صورتیں ہیں ؟ مؤلف موصوف حفظہ اللہ نے طوالت کے خوف سے ان کو ذکر نہیں کیا۔ علامہ اسعدی نے اس کی قدرے معقول مگر نہایت مختصر اور تقریباً مغلق تفصیل ’’علوم الحدیث ص۱۱۵۔۱۱۶‘‘ میں درج کی ہے۔ ان کی بنیادی قسمیں دو ہیں (۱)وجوہِ ترجیح باعتبار متن (۲) اور وجوہِ ترجیح باعتبار سند اور اس کے بعد وجوہ جمع ہیں ۔ رہ گئی تطبیق کی تیسری صورت، تو وہ خود نادر ہے چہ جائیکہ کسی تفصیل کی محتاج ہو، دوسرے وہ صورت بھی وجوہِ ترجیح کی تفصیلی معرفت پر موقوف ہے۔
جب کہ ناسخ اور منسوخ کی تفصیل خود آگے متن میں آرہی ہے۔