کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 87
اب یہ دونوں حدیثیں (صحیحین کی ہیں اور) صحیح ہیں مگر بہ ظاہر دونوں (کے معنی) میں تعارض ہے، کیوں کہ پہلی حدیث چھوت چھات کی نفی اور اس کا انکار کرتی ہے (کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ کہ یہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت کا عقیدہ تھا جسے اسلام نے آکر مٹادیا)، جب کہ دوسری حدیث (جو رتبہ اور قوت میں یعنی صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہونے میں پہلی حدیث کے ہم پلہ ہے) اِسی (چھوت چھات) کا اِثبات کرتی ہے (کہ کوڑھی کے قریب مت پھٹکو کہیں اس کی گندی بیماری تمہیں نہ لگ جائے اس لیے اسے دیکھ کر یوں ڈر کر پیچھے ہٹو جیسے تم شیر کو دیکھ کر اس سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہو) مگر (ذوفہم اور ثاقب رائے رکھنے والے فقہاء) علماء نے ان دونوں احادیث (کے معانی) کو جمع کیا ہے اور ان دونوں کے درمیان متعدد وجوہ سے تطبیق دی ہے۔ یہاں ہم تطبیق اور توفیق کی اس صورت کو ذکر کریں گے جو علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے: ۴۔ دونوں احادیث میں جمع و تطبیق کی صورت و کیفیت کا بیان: (علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کی بیان کردہ توجیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ) دونوں احادیث میں جمع کی صورت یوں پیدا کی جاسکتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ، ’’(اسلام میں ) چھوت چھات کی نفی بھی ہے اور واقع میں یہ بات ہوتی بھی نہیں (جیسا کہ دوسری احادیث میں یہ بات وضاحت و صراحت کے ساتھ مذکور بھی ہے) اس کی دلیل (ترمذی شریف میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: (( لا یُعْدِی شیئٌ شَیئًا)) [1] (بیماری وغیرہ میں سے) کوئی چیز (اپنے بد اثرات کے ساتھ) کسی دوسری چیز تک متعدی نہیں ہوتی‘‘ (یعنی اسلام میں ایک کی بیماری دوسرے کو لگنے کا کوئی تصور نہیں ) اس کی دوسری دلیل وہ واقعہ ہے جس میں ایک (بدوی) شخص جنابِ رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس بات میں بحث کر رہا تھا کہ اگر ایک ’’خارشی اونٹ‘‘ کو تندرست اونٹوں میں چھوڑ دیا جائے تو اس کی بیماری تندرست اونٹوں کو بھی لگ جائے گی۔ اس پر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ، ’’(اچھا) پھر (بتلاؤ کہ) پہلے اونٹ کو خارش کی بیماری کس نے لگائی تھی؟[2] ‘‘(کہ اس وقت تو کوئی دوسرا خارشی اونٹ نہیں تھا جس سے متعدی ہو کر یہ بیماری اس اونٹ کو لگی تھی) یعنی یہ رب تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس نے دوسرے اونٹ کو بھی خارش کی بیماری لگائی جیسے کہ اس نے پہلے اونٹ کو بیمار کیا (ناکہ یہ بات ہے کہ پہلے اونٹ کی بیماری متعدی ہو کر دوسرے اونٹ کو لگ گئی ہے) رہ گئی دوسری حدیث جس میں کوڑھی سے بھاگنے کا حکم ہے (جس سے بظاہر اس حدیث کا پہلی حدیث کے متعارض ہونا سمجھ میں ہوتا ہے) تو (اس میں ) یہ (حکم) بطورِ ’’سد ذرائع‘‘[3]کے ہے۔ یعنی
[1] الترمذی/ کتاب القدر ج۴ ص۴۵۰، واخرجہ احمد (طحّان) [2] البخاری/ کتاب الطب ج۱ ص۱۷۱ مع فتح الباری ، واخرجہ مسلم وابوداؤد و احمد [3] ذرائع یہ ذریعہ کی جمع ہے یعنی اسباب و بواعث اور ’’سدّ‘‘ یہ سَدَّ یَسدُّ سے ہے جس کا معنی خرابی یا بگاڑ کا دور کرنا اور رخنہ، سوراخ اور شگاف وغیرہ کو بند کرنا ہے مراد یہ ہے کہ ایک شی کے وجود میں آنے کے اسباب و بواعث کو ختم کرنے اور ان پر بندش لگانے کو ’’سدِ ذرائع‘‘ کہتے ہیں جس کو عرفِ عام میں ’’سدِّ باب‘‘ کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔