کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 84
ب: …حدیث مشہور جو متعدد طرق سے مروی ہو اور وہ سب کے سب طرق رواۃ کے ضعف اور علتوں سے محفوظ ہوں ۔
ج: …وہ حدیث جو غریب تو نہ ہو (یعنی اس کی اسناد میں کسی جگہ ’’ایک راوی‘‘ نہ ہو) مگر اس کو روایت کرنے والوں میں ائمہ دین، حفاظِ حدیث اور رواۃِ متقنین کا ایک سلسلہ ہو( کہ اس کا اگلا راوی اس درجہ کا ہو) جیسے وہ حدیث جس کو امام احمد رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے اور انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا اور امام مالک سے روایت کرنے میں دوسرے روایانِ حدیث بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ شریک ہوں ۔
۳۔ خبر واحد مقبول محتفّ بالقرائن کا حکم:
ایسی حدیث کسی بھی دوسری خبر واحد سے راجح (اور مرتبہ و قوت میں اس سے فائق) ہوتی ہیں ۔ چناں چہ اگر کسی بھی دوسری خبر واحد کا ’’خبر واحد مقبول محتفّ بالقرائن‘‘ سے معارضہ ہو جائے تو اس وقت ’’خبر واحد مقبول محتفّ بالقرائن‘‘ کو دوسری اخبار آحاد پر ترجیح دی جائے گی۔[1]
[1] یاد رہے کہ خبرِ واحد مقبول محتف بالقرائن کے یقین کا فائدہ دینے کے جو قرائن ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے پہلا قرینہ یعنی اس حدیث کا صحیحین میں سے کسی ایک میں سے ہونا اس وقت مفیدِ یقین ہوگا جب اس حدیث پر ائمہ محدثین میں سے کسی نے نقد نہ کیا ہو اور خود باہم صحیحین کی روایات یا دوسری کتب کی روایات میں باہم تعارض نہ ہو۔ (علوم الحدیث بتصرفٍ ص۱۰۹)