کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 82
۵۔ حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ میں کیا فرق ہے؟
مندرجہ ذیل جملوں میں غلط اور صحیح کی نشان دہی کیجیے۔
۱۔ کسی حدیث کے بارے میں محدثین کا یہ کہنا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے زیادہ مرتبہ رکھتا ہے ان کے کسی حدیث کے بارے میں یہ کہنے سے کہ ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘۔
۲۔ امام بغوی نے بھی حسن اور صحیح کو اپنی ایک خاص اصطلاح کے طور پر متعارف کروایا ہے۔
۳۔ حسن لغیرہ کو اگر دیگر طرق حاصل نہ ہوں تو وہ ضعیف ہوتی ہے۔
۴۔ اگر کوئی راوی متہم بالکذب ہوتو اسے تعدد طرق سے حسن لغیرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ ذیل خالی جگہ کو مناسب الفاظ سے پر کیجیے۔
۱۔ حسن لذاتہ کی جو تعریف …… نے کی ہے، مصنف کے نزدیک وہ راجح ہے۔
۲۔ صحیح لغیرہ کادرجہ ……سے زیادہ جب کہ …… سے کم ہے۔
۳۔ صحیح لذاتہ کے … …مراتب ہیں ۔
۴۔ سنن الترمذی میں …… درجے کی روایات بکثرت پائی جاتی ہیں ۔
۵۔ ’’حسن لذاتہ + حسن لذاتہ = …… ‘‘
۶۔ اگر ’’حسن لذاتہ‘‘ کا ’’حسن لغیرہ‘‘ کے ساتھ معارضہ ہو جائے تو ’’……‘‘ مقدم ہوگی۔
عملی کام: …جن اصولوں کا مطالعہ آپ کرچکے ہیں ان کی روشنی میں بتائیے کہ مندرجہ ذیل حدیث صحیح کے کس درجہ میں ہے اور اس کی وجہ بھی تحریر کیجیے:
’’حدثنا عبد اللّٰه بن الحکم بن ابی زیاد الکوفی وھارون بن عبد اللّٰه البزار البغدادی قالا حدثنا سیار ھو ابن حاتم قال نا جعفر بن سلیمان عن ثابت عن انس أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم دخل علی شاب وھو فی الموت…… ‘‘
عملی کام: …کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ راویوں کی نقدوجرح میں اختلاف کیوں ہوتا ہے؟ عملی کام: اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ وہ طلبہ کو صحیح لغیرہ، حسن لذاتہ اور لغیرہ کی عملی مشقیں کروائیں حتی کہ وہ انہیں اچھی طرح سمجھ لیں ۔