کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 81
۴۔ ’’حسن لغیرہ‘‘ کا حکم: یہ حدیث ’’مقبول‘‘ کی قسم میں سے ہے اور (احکامِ شرعیہ میں ) قابلِ استدلال ہے( کہ اس حدیث کو احکام شرعیہ میں اور مسائل فقہیہ کے استنباط میں دلیل بنایا جاسکتا ہے) ۵۔ ’’حسن لغیرہ‘‘کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کو ترمذی نے روایت کرکے اس کو حسن کہا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو اس طریق سے روایت کرتے ہیں : ’’عَنْ شعبۃ عن عاصم بن عبید اللّٰہ، عن عبداللّٰہ بن عامر بن ربیعۃ عن ابیہ انّ امراۃً من بنی فزارۃ تزوجت علی نعلین فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : اَرَضِیْتِ مِنْ نَفْسِکَ وَ مَالِکَ بِنَعْلَیْنِ؟ قَالَتْ، ’’نَعَمْ! ‘‘ قَالَ:فَاَجَازَہٗ‘‘ ’’شعبہ، عاصم بن عبید اللہ سے، وہ عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے، وہ اپنے والد عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک خاتون نے دو جوتوں (کے حق مہر) پر شادی کرلی تو جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ارشاد فرمایا ’’کیا تو اپنی جان اور مال کے بدلے میں دو جوتوں پر راضی ہو گئی؟ اس عورت نے کہا ’’جی ہاں !‘‘ راوی کہتے ہیں ، ’’تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو جائز قرار دے دیا۔‘‘ امام ترمذی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ، ’’اس باب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ، حضرت انس رضی اللہ عنہ ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوحدرد اسلمی رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث مروی ہیں ۔‘‘[1] (علامہ محمود طحّان فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : ’’عاصم اپنے حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ضعیف ہیں اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے عاصم کی اس حدیث کو اس لیے حسن کہا ہے، کیوں کہ یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی آتی ہے۔ مشقی سوالات ۱۔ صحیح لذاتہ پر نوٹ لکھیں ۔ ۲۔ حدیث حسن صحیح سے کیا مراد ہے ؟ ۳۔ حسن حدیث کے مواقع کون سے ہیں ؟ ۴۔ امام ترمذی کی اس اصطلاح کی وضاحت کیجیے کہ ’’ھذا حدیث حسن صحیح۔‘‘
[1] الترمذی/ابواب النکاح باب ماجاء فی مھور النساء۔حدیث رقم۳/۱۱، ج۳ ۴۲۰۔۴۲۱(طحّان)