کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 79
کے صدق اور علمی جلالت قدر کی بنا پر انہیں ثقہ کہا ہے۔
پس محمد بن عمرو کی حدیث اس جہت سے ’’حسن‘‘ ہے۔ (کہ اس کی اسناد کے ایک راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کی بابت دو اقوال ہیں ) لیکن جب اس کے ساتھ ایک دوسرے طریق سے مروی ایک اور حدیث مل گئی تو اس حدیث کے ملنے سے عمرو بن سلمہ کی حافظہ کی خرابی کی جہت کا کھٹکا اور اندیشہ جاتا رہا۔ اور وہ حدیث صحیح کے درجہ تک جاملی۔‘‘ [1]
[1] علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۳۱۔۳۲ (طحّان)
مؤلف موصوف علامہ محمود طحّان نے ’’حدیث حسن‘‘ کی تعریف، مرتبہ اور مثال کو تو بیان کردیا ہے مگر اس کا حکم بیان نہیں کیا۔ علاّمہ اسعدی حفظہ اللہ حدیث ’’صحیح لغیرہ‘‘ کا حکم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’اس حدیث کو شرعاً حجت اور دلیل بنانا جائز ہے اور یہ حدیث لائقِ عمل ہے‘‘(علوم الحدیث، ص: ۱۰۳ بتصرفٍ)