کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 76
یا ’’صحیح‘‘ میں سے کوئی حکم راجح نہیں ۔[1]
۷۔ امام بغوی رحمہ اللہ کا ’’المصابیح‘‘[2]کی احادیث کو (اپنی ایک خاص اصطلاح میں ) تقسیم کرنا:
امام بغوی رحمہ اللہ نے اپنی (مشہور زمانہ) کتاب ’’المصابیح‘‘ میں اپنی ایک خاص اصطلاح کو درج کیا ہے، وہ یہ کہ امام موصوف ’’صحیحین‘‘ یا دونوں میں سے کسی ایک کتاب کی حدیث کی طرف لفظ ’’صحیح‘‘ کے ساتھ اور ’’سننِ اربعہ‘‘ کی احادیث کی طرف لفظ ’’حسن‘‘ کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں ۔ مگر یہ اصطلاح عامۃ المحدثین کی اصطلاح کے مطابق درست نہیں کیوں کہ ’’سننِ اربعہ‘‘ میں صحیح، حسن، ضعیف اور منکر ہر قسم کی روایات پائی جاتی ہیں ۔ اسی لیے علامہ ابن صلاح رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس (خود ساختہ اصطلاح کے غیر مستقیم ہونے) کی طرف اشارہ اور تنبیہہ کی ہے۔ اسی لیے ’’المصابیح‘‘ کے قاری پر لازم ہے کہ وہ امام بغوی رحمہ اللہ کی اس مخصوص اصطلاح سے واقف ہو (کہ) جب وہ کسی حدیث کو ’’صحیح‘‘ یا ’’حسن‘‘ کہتے ہیں (تو اس سے ان کی مراد عام اصطلاح کے مطابق حدیث کا صحیح یا حسن ہونا مراد نہیں ہوتا بلکہ ان الفاظ سے ان کی اپنی ایک مجوزہ تقسیم کی طرف اشارہ ہوتا ہے)۔
۸۔ احادیث ’’حسن‘‘ کے مواقع[3] کا بیان(کہ یہ احادیث کن کتب میں مل جاتی ہیں ):
علماء محدثین نے خاص ایسی کتب تالیف نہیں کیں جو ’’احادیثِ حسن‘‘ کو جامع ہوں جیسا کہ انہوں نے خاص ’’احادیثِ صحیحہ‘‘ کو جامع مستقل اور الگ کتب تالیف کی ہیں ۔ البتہ کچھ ایسی کتابیں ضرور ہیں جن میں ’’احادیث حسن‘‘ بکثرت پائی جاتی ہیں ۔ ان میں سے چند مشہور کتب کا تعارف ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
الف:… جامع الترمذی: اس کا مشہور نام ’’سُنَنُ الترمذی‘‘ ہے۔ ’’حدیث حسن‘‘ کی معرفت میں ’’جامع ترمذی‘‘ اصل کا درجہ رکھتی۔ اور یہ امام ترمذی ہی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں لفظِ حسن کو بکثرت استعمال بھی کیا ہے اور اس لفظ کو مشہور بھی کیا ہے۔ البتہ یہاں ایک بات کی طرف خاص توجہ دینا بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ’’امام ترمذی کی
[1] امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی اصطلاح کی بیان کردہ اس توجیہ و تفسیر سے ایک اہم فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ ’’شق اوّل کے مطابق جس حدیث کے بارے میں ’’حسن صحیح‘‘ کی تعبیر لائی جائے، وہ اس حدیث سے فائق ہوگی جس کے متعلق صرف ’’صحیح‘‘ کہا جائے، جب کہ وہ غریب یعنی صرف ایک اسناد کے ساتھ مروی ہو کیوں کہ ’’حدیث حسن صحیح‘‘ کہنے سے حدیث کی ایک سے زائد اسناد کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جِس حدیث کی ایک سے زائد اسناد ہوں وہ اس حدیث سے فائق ہوگی جس کی صرف ایک اسناد ہو فافھم و تدبّر۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۰۲ بتصرفٍ و زیادۃٍ)
[2] امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب کا پورا نام ’’مصابیح السنۃ‘‘ ہے اس کتاب میں علامہ موصوف نے صحیحین سنن اربعہ (ترمذی۔ ابوداؤد۔ نسائی اور ابن ماجہ) اور سننِ دارمی سے احادیث کو منتخب کرکے جمع کیا ہے۔ اس کتاب کا نام اضافہ اور تہذیب کے بعد خطیب تبریزی نے ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ رکھا ہے۔ (طحّان)
[3] علامہ موصوف نے اس جگہ عبارت میں لفظ ’’مَظِنَّاتٌ‘‘استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے مولف موصوف حاشیہ میں لکھتے ہیں : ’’مظنّات‘‘ یہ ’’مَظِنَّۃُ‘‘ (ظاکے کسر کے ساتھ) کی جمع ہے اور ’’مظنۃ الشیء‘‘ کسی چیز کی اصل، جڑ‘ سرچشمہ، ماخذ اور پائے جانے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اِس لغوی معنی کی بنیاد پر مذکورہ عنوان کا مطلب یہ ہوگا، ’’وہ کتابیں جو ’’حسن حدیث‘‘ کے پائے جانے کی جگہیں ہیں ‘‘ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں ۔ ’’ان کتابوں کا بیان جن میں احادیث حسن پائی جاتی ہیں ۔‘‘