کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 75
حسن‘‘ سے کم ہے۔کیوں کہ کبھی ’’اسناد‘‘ تو صحیح یا حسن ہوتی ہے مگر کسی شذوذ یا علت کی وجہ سے متن صحیح یا حسن نہیں ہوتا۔[1] پس گویا کہ جب محدث یہ کہتا ہے، ’’ھذا حدیث صحیح‘‘ تو وہ ہمارے لیے اس حدیث میں صحت کی شروط خمسہ کے پائے جانے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ لیکن جب کوئی محدث یہ کہتا ہے، ’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ تو وہ ہمارے لیے صحتِ حدیث کی فقط تین شروط، اتصالِ اسناد، عدالت رواۃ اور ضبط رواۃ کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ رہا متنِ حدیث میں شذو زیا علت کا نہ پایا جانا تو محدث (اس قول کی بنا پر) ان دونوں کی ہمارے لیے کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتا۔ کیوں کہ اسے ان دونوں باتوں کا تحقق اور وثوق نہیں ہوتا۔
البتہ اگر کوئی معتمد اور حافظ محدث صرف یہ کہنے پر اقتصار کرے ’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ اور ساتھ ہی اس حدیث میں کسی علت کے پائے جانے کی صراحت نہیں کرتا تو بظاہر یہ اس کے متن کے صحیح ہونے کی بھی دلیل ہے۔ کیوں کہ اصل کسی حدیث میں علت یا شذوذ کا نہ ہونا ہے۔
۶۔امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ کے قول ’’حدیث حَسَن ُ ٗصحیح‘‘[2]کا مطلب:
اس عبارت اور تعبیر کا ظاہر مشکل ہے، کیوں کہ حسن کا درجہ صحیح سے کم ہوتا ہے تو بھلا دونوں کے مراتب میں فرق کے باوجود ان دونوں کو (حکم میں ایک حدیث میں ) کیوں کر جمع کیا جاسکتا ہے؟ امام ترمذی رحمہ اللہ کا اس عبارت اور تعبیر سے کیا مقصود ہے؟ علماء نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں اور ان میں سب سے بہتر جواب وہ ہے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیا ہے اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کو پسند کیا ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے جواب کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
الف: …اگر تو حدیث کی دو یا دو سے زیادہ اسناد ہوں تو پھر (اس تعبیر کا) مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث ایک اسناد کے اعتبار سے حسن اور کسی دوسری اسناد کے اعتبار سے صحیح ہے۔
ب: … اور اگر حدیث کی ایک ہی سند ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ، ’’یہ حدیث محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک تو حسن ہے، جب کہ دوسری جماعت کے نزدیک صحیح ہے۔‘‘
گویا کہ یہ کہنے والا اس حدیث پر علماء کے حکم میں اختلاف کی طرف اشارہ کر رہا ہے یا پھر اس کے نزدیک ’’حسن‘‘
[1] مطلب یہ ہے کہ پہلے دونوں جملوں میں اسناد کو حسن یا صحیح کہا گیا ہے، جب کہ کبھی اسناد تو صحیح ہوتی ہے مگر متن کسی علت وغیرہ کی وجہ سے مجروح ہوتا ہے۔ اور دوسری قسم کے جملوں میں محدثین کے حدیث کو صحیح یا حسن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کا متن سند سمیت صحیح یا حسن ہے۔ جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۰۱ بتصرف و زیادۃ)
[2] ترمذی وغیرہ بعض محدثین کا دستور ہے کہ وہ حدیث کا حکم بیان کرنے میں لفظ ’’حسن‘‘ اور ’’صحیح‘‘ دونوں کو یکجا کر دیتے ہیں ، جب کہ اصطلاح میں ان دونوں میں فرق ہے۔ علماء نے اس کے متعدد جوابات دیئے۔ سب سے عمدہ جواب حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جسے سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی پسند کیا ہے۔ اس کی تفصیل اوپر بیان کر دی جاتی ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۰۱ بتصرفٍ و زیادۃ)