کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 74
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ، ’’میں نے اپنے والد ماجد (حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ) کو دشمنوں کے سامنے (میدانِ جہاد میں ) یہ کہتے سنا، کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے، ’’بے شک جنت کے دروازے تلواروں کے سایوں تلے ہیں …الحدیث‘‘
اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث حسن اور غریب ہے۔‘‘ (مولف موصوف فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : ’’یہ حدیث حسن ہے، کیوں کہ اس کی اسناد کے چار رجال ثقہ ہیں ، سوائے جعفر بن سلیمان ضبعی کے کہ وہ ’’حسن الحدیث‘‘[1]ہیں ، اسی لیے اس حدیث کا مرتبہ ’’صحیح‘‘ سے گھٹ کر ’’حسن‘‘ کے مرتبہ میں پہنچ گیا۔
۴۔ ’’حسن لذاتہ‘‘ کے مراتب:
جیسے ’’صحیح حدیث‘‘ میں صحت کے مراتب ہوتے ہیں جس سے احادیثِ صحیحہ کا مرتبہ بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہو جاتا ہے، اسی طرح حدیث ’’حسن لذاتہ‘‘ کے بھی مراتب ہیں ۔ علامہ ذھبی رحمہ اللہ نے ان کے دو (اصولی) مراتب بیان کیے ہیں ، جو یہ ہیں :
الف: … ’’حسن لذاتہ‘‘ کا اعلیٰ مرتبہ: یہ وہ حدیث ہے جس کے رواۃ کی تصحیح یا تحسین میں محدثین کا اختلاف ہو، جیسے وہ حدیث جسے بہز بن حکیم اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے بیان کریں ، اور وہ حدیث جسے عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کریں ، اور وہ حدیث جسے ابن اسحاق تیمی سے بیان کریں وغیرہ اور اس جیسی دوسری مثالیں جن کے بارے میں صحیح ہونے کا بھی قول ہے، جو صحیح کا سب سے ادنیٰ مرتبہ ہے۔
ب:… ’’حسن لذاتہ‘‘ کا ادنیٰ مرتبہ: یہ وہ حدیث ہے جس کے رواۃ کی تحسین اور تضعیف میں اختلاف ہو۔[2] جیسے حارث بن عبداللّٰہ، عاصم بن ضمرۃ اور حجاج بن ارطاۃ جیسے رواۃ کی حدیث۔
۵۔ محدثین کے قول، ’’حدیث صحیح الاسناد‘‘ یا ’’حسن الاسناد‘‘ کا مرتبہ: [3]
(ان دونوں تعبیرات میں جو فرقِ مراتب ہے اس کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے)
الف: …محدثین کا قول، ’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ مرتبہ میں اس قول، ’’ھذا حدیث صحیح‘‘ سے کم ہے۔
ب: …اس طرح محدثین کا یہ کہنا، ’’ھذا حدیث حسن الاسناد‘‘ مرتبہ میں اس قول ’’ھذا حدیث
[1] جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تھذیب التھدیب ج۲ ص۹۶‘‘ میں ابو احمد سے نقل کیا ہے۔ ’’طحّان‘‘ علامہ اسعدی لکھتے ہیں :’’جعفر بن سلیمان ضبعی کا ضبط کمزور تھا۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۰۰ بتصرفٍ)
[2] اور یہ اختلاف اِن کے رواۃ کے مختلف احوال کی وجہ سے ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۰۰ بتصرفٍ)
[3] محدثین ’’صحت و حسن‘‘ کے اعتبار سے حدیث کی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے مختلف تعبیرات اختیار کرتے ہیں ان کے مصداق میں باعتبار مراتب فرق ہے۔ اس کی تفصیل اوپر متن میں بیان کی جاتی ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۰۱ بتصرفٍ)