کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 73
کیے گئے ہیں ۔ جب کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کی صرف ایک قسم کی تعریف بیان کی ہے اور وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ ہے، جب کہ تعریف میں اصل یہ ہے کہ ’’حسن لذاتہ‘‘ کی تعریف کی جائے، کیوں کہ ’’حسن لغیرہ‘‘ اصل میں ’’ضعیف‘‘ (حدیث کی ایک قسم) ہے جو ترقی کرتے کرتے حسن کے درجہ تک پہنچی ہوتی ہے، کیوں کہ اس کے ضعف کی طرقِ روایت کے متعدد ہونے کی وجہ سے تلافی ہو جاتی ہے۔ ۴۔ حسن لذاتہ کی ’’مختار تعریف‘‘:… علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کی بیان کردہ تعریف کی بنا پر ’’حسن لذاتہ‘‘ کی تعریف ان الفاظ سے کی جاسکتی ہے: ’’یہ حدیث کی وہ قسم ہے جو متّصل سند کے ساتھ شروع سے لے کر آخر تک کسی قسم کے شذوذ اور علت کے بغیر عادل اور کمزور ضبط والے راویوں سے منقول ہو اور وہ رواۃ اس حدیث کو ’’اپنے جیسے‘‘ راویوں سے نقل کرتے ہوں ۔‘‘[1] ۲۔ ’’حسن لذاتہ‘‘ کا حکم: (حجت شرعیہ بنانے میں اور) اس کے ذریعے (احکام میں ) استدلال کرنے میں ’’حسن لذاتہ‘‘ ’’صحیح‘‘ کی طرح ہے اگرچہ قوت میں صحیح سے کم ہے۔ اسی لیے سب فقہاء نے ’’حسن لذاتہ‘‘ کو (استنباطِ مسائل میں ) دلیل بنایا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور محدثین اور علماءِ اصول کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس کو دلیل اور حجت بنایا ہے، سوائے چند شاذ اور متشدد علماء کے اور بعض متساھل علماء نے ’’حسن لذاتہ‘‘ کو صحیح کی اقسام میں درج کیا ہے۔ جیسے حاکم، ابن حِبّان اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ وغیرہ حضرات، اگرچہ اس بات کے قائل وہ بھی ہیں کہ حدیث حسن گزشتہ مذکورہ اور بیان کردہ صحیح حدیث سے مرتبہ میں کم ہے۔[2] ۳۔ ’’حسن لذاتہ‘‘ کی مثال: اس کی مثال وہ روایت ہے جو امام ترمذی نے روایت کی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسناد سمیت حدیث روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’…عن ابی بکر بن ابی موسی الاشعریِّ قال : سمعتُ ابی بحضرۃ العدوّ یقول : قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم : ’’اِنَّ اَبْوَابَ الْجَنَّۃِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ… الحدیث‘‘[3] ’’ہمیں قتیبہ نے ، وہ کہتے ہیں ہمیں جعفر بن سلیمان ضبعی نے ابو عمران جونی سے، انہوں نے ابوبکر بن
[1] ہمارے قول ’’اپنے جیسے‘‘ سے یہ مراد نہیں کہ اسناد کے تمام عادل رجال کے لیے یہ شرط ہے کہ ان کا ضبط کمزور ہی ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ یاتو سب کے سب کا ضبط کمزور ہو یا پھر بعض کا ضبط کمزور ہو، چاہے ان میں سے ایک کا ہی ضبط کمزور ہو اگرچہ باقی سب عادل رواۃ کا ضبط تام اور مکمل ہو، کیوں کہ حدیث پر حکم اس راوی کی بنا پر لگتا ہے جو اسناد میں سب سے کمزور درجہ کا ہو۔ (طحّان) [2] دیکھیں تدریب الراوی ج۱ ص۱۶۰ (طحّان) [3] الترمذی/ابواب فضائل الجھاد ۔ ج۵ ص۳۰۰ من الترمذی مع شرحہ تحفہ الاحوذی (طحّان)