کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 61
۷۔ کیا کسی سند کے بارے میں مطلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ’’سب سے صحیح‘‘ سند ہے؟ اس بارے میں مختار قول یہ ہے کہ کسی اسناد کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مطلقاً یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے، کیوں کہ اسناد کی صحت کے مراتب میں فرق اس کے شروطِ صحت کو پالینے اور انہیں حاصل کرلینے پر مبنی ہے (کہ جتنی کسی اسناد میں صحت کی شروط زیادہ ہوں گی اتنی اسناد کی صحت اعلیٰ درجہ کی ہوگی اور جتنی کسی اسناد میں صحت کی شروط کم ہوں گی اتنی اس کی صحت کم درجہ کی ہوگی) اور دوسرے صحت کی جملہ شروط میں اعلیٰ درجات کا پایا جانا نادر ہے۔ اسی لیے اولیٰ یہ ہے کہ کسی اسناد پر ’’اصح الاسانید‘‘ کا مطلق حکم لگانے سے گریز ہی کیا جائے۔ مگر اس کے باوجود بعض ائمہ سے یہ قول بھی منقول ہے کہ فلاں اسناد ’’اصحّ الاسانید‘‘ ہے اور بظاہر ہر امام نے اس اسناد کو ’’اصحّ الاسانید‘‘ کہنے میں ترجیح دی ہے جو اس کے نزدیک قوی ہے، ذیل میں چند اقوال نقل کیے جاتے ہیں کہ ائمہ محدثین نے (اپنی اپنی تحقیق کے مطابق) کن اسانید کو ’’اصحّ الاسانید‘‘ کہا ہے: الف: …ا لزھریُّ عن سالم عن ابیہ[1] یہ اسحاق بن راہویہ اور امام احمد کی رائے ہے۔ ب:… ابن سیرین عن عبیدۃ عن علیّ [2] یہ ابن المدینی اور فلاّس کا قول ہے۔ ج: …الاعمش عن ابراھیم عن علقمۃ عن عبداللّٰہ [3] یہ قول ابن معین کا ہے۔ د:… الزہری عن علیّ بن الحسین، عن ابیہ، عن عليّ یہ ابوبکر بن ابی شیبہ کی رائے ہے۔ ھ: …مالک رحمہ اللّٰه عن نافع ، عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے۔[4]
[1] ابیہ سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں (طحّان) [2] ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب مراد ہیں (طحّان) [3] ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مراد ہیں (طحّان) [4] علامہ اسعدی رقم طراز ہیں : ’’اسانید کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے کسی نے اشخاص کے اعتبار سے ’’اصح الاسانید‘‘ کا حکم لگایا ہے، کسی نے کسی خاص شہر اور علاقے کے باشندوں کے اعتبار سے یہ حکم لگایا ہے۔ بعض نے صحابہ اور مخصوص اساتذہ و شیوخِ حدیث کے اعتبار سے اس کا فیصلہ کیا ہے۔ غرض اس قسم کے فیصلے ہر ایک نے اپنی اپنی تحقیق اور معلومات کی بنیاد پر کئے ہیں ۔ لیکن پسندیدہ یہ ہے کہ کسی سند کو ’’اصح الاسانید‘‘ (صحیح ترین سند) نہ کہا جائے۔ کیوں کہ صحت کے مراتب کا فرق و تفاوت شروطِ صحت کے پائے جانے اور نہ پائے جانے پر موقوف ہے اور کسی سند کے تمام رواۃ کا شروطِ صحت کے اعلی مراتب پر پایا جانا نادر ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جن اسانید کے متعلق ائمہ حدیث نے کسی اعتبار سے یہ فیصلہ کیا ہے، وہ اُن اسانید پر راجح قرار پائیں گی جن کے متعلق ائمہ سے اس قسم کے فیصلے منقول نہیں‘‘۔(علوم الحدیث، ص: ۸۵ بتصرفٍ بحوالہ نزھۃ النظر ص۳۰)