کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 58
۱۔ صحیح لذاتہ
ا: صحیح لذاتہ کی تعریف:
الف: …لغوی تعریف: لفظ صحیح (جس کا لغوی معنی تندرست اور بیماری اور عیب سے پاک ہونا ہے) یہ ’’سقیم‘‘ کی ضد ہے (جس کا معنی بیمار ہے) لفظِ صحیح (کا یہ لغوی معنی) ’’اجسام‘‘ میں (یعنی امور حسیّہ میں ) تو ’’حقیقت‘‘[1]ہے جب کہ ’’حدیث‘‘ اور جملہ معانی میں ’’مجاز‘‘ہے۔
ب:تعریف کی شرح:
مذکورہ بالا تعریف چند ایسے امور پر مشتمل ہے جن کا (صحیح حدیث میں ) پایا جانا ضروری ہے۔ [2]تاکہ حدیث ’’صحیح‘‘ بن سکے۔ ذیل میں ان امور کو ترتیب وار بیان کیا جاتا ہے۔
الف: …اتصالِ سند: اتصال سند سے مراد یہ ہے کہ سند میں مذکورہ ہر راوی نے اس حدیث کو بلاواسطہ اپنے سے اوپر کے راوی سے لیا ہو اور بلاواسطہ حدیث لینے کا یہ سلسلہ شروع سے لے کر آخر تک قائم رہا ہو۔
ب: …عدالت رواۃ: [3]یعنی سند کا ہر راوی مسلمان، عاقل، بالغ، متقی اور نیک ہو اور اس کی شرافت و مروت ہر قسم کے عیب اور داغ سے خالی ہو۔
ج: …ضبط رواۃ:یعنی سندِ حدیث کا ہر راوی (حدیث سننے کے بعد اسے) یاد رکھنے کا پورا اہتمام کرنے والا ہو خواہ ذاتی حافظہ سے اور چاہے (اسکو) ضبطِ تحریر میں لانے کے ذریعے سے۔
د:… عدم شذوذ: یعنی وہ حدیث شاذّ نہ ہو اور شذوذ (اصطلاح میں ) کسی ثقہ راوی کے اپنے سے بھی زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کرنے کو کہتے ہیں ۔(دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ عدمِ شذوذ یہ ہے کہ سندِ حدیث کا کوئی ثقہ راوی اپنے سے فائق ثقہ راوی کی مخالفت کرنے والا نہ ہو)۔
ھ: …عدم علّت (یعنی اس حدیث کا غیر معلول ہونا) : یعنی وہ حدیث معلول نہ ہو اور علّت ایسے مخفی اور گہرے سبب کو کہتے ہیں جو حدیث کی صحت پر اثر انداز ہو۔ (غرض صحیح حدیث وہ ہے جو کسی مخفی عیب اور نقص سے بھی خالی ہو)
[1] ’’حقیقت‘‘ وہ لفظ ہے جو اپنے معنی موضوع لہ میں استعمال ہو۔ ( ’’التعریفات‘‘ للجرجانی ص۶۵ کالم نمبر ۱ اصطلاح نمبر ۵۹۴) اور ’’مجاز‘‘ وہ لفظ ہے جو اپنے معنی کے علاوہ میں یعنی غیر موضوع لہ میں استعمال ہو۔ (دروس البلاغۃ مع شرحہ شموس البراعۃ ص۱۱۲)
[2] گویا کہ صحیح حدیث کے لیے یہ امور جو پانچ ہیں ، شروط کا درجہ رکھتے ہیں ۔
[3] دین کے بارے میں کسی کا لائق اطمینان ہونا عدالت کہلاتا ہے۔(علوم الحدیث، ص: ۵۵ حاشیہ نمبر ۱)