کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 52
(( اَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم دَخَلَ مَکَّۃَ وَعَلَی رَأْسِہِ الْمِغْفَرُ۔)) [1] ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’جنابِ رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ مبارک پر خود تھا۔‘‘ اس حدیث کو زہری سے صرف مالک نے روایت کیا ہے (یعنی مالک اس حدیث کو زہری سے روایت کرنے میں متفرد ہیں ) ۳۔ وجہ تسمیہ:… حدیث غریب کی اس قسم کو ’’غریبِ نسبی‘‘ اس لیے کہتے ہیں کیوں کہ اس حدیث (کی اسناد) میں تفرد کسی شخصِ معین کی طرف نسبت کرنے کے اعتبار سے(یعنی اس میں تفرد اور غرابت کی نسبت حدیث کی اسناد کے کسی درمیانی طبقہ کی طرف ہوتی) ہے۔ ۵۔ غریب نسبی کی اقسام: غرابت یا تفرد کی کچھ اقسام ایسی ہیں جن کو ’’غریب نسبی‘‘ میں شمار کر سکتے ہیں کیوں کہ ان اقسام میں ’’مطلق غرابت‘‘ نہیں ، بلکہ ان میں غرابت کسی ’’معین شی‘‘[2]کی طرف منسوب کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔[3]ذیل میں غرابت کی ان اقسام کا اختصار کے ساتھ تعارف ملاحظہ کیجیے! الف: … روایتِ حدیث میں ثقہ راوی کا تفرد: (اس کو ’’تفرد ثقہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) جیسے محدثین کا یہ کہنا، ’’ اس حدیث کو صرف فلاں ثقہ نے روایت کیا ہے۔[4] ب:… کسی معین راوی کا کسی معین راوی سے (روایت کرنے میں ) تفرد: جیسے محدثین کا یہ کہنا، ’’اس حدیث کو فلاں راوی فلاں راوی سے روایت کرنے میں متفرد ہے‘‘ اگرچہ وہ حدیث دوسرے طرق سے اس فلاں معین راوی کے علاوہ کسی اور سے بھی مروی ہو۔[5]
[1] رواہ البخاری/کتاب المغازی حدیث رقم ۴۲۸۶، ورواہ مسلم/کتاب الحج حدیث رقم ۴۵۰۔ [2] یعنی اس حدیث کا تفرد کسی خاص حال کی وجہ سے ہو (علوم الحدیث، ص: ۷۱) [3] کسی راوی کے تنہا کسی حدیث کو روایت کرنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں جن کو ان کے احوال کے اعتبار سے الگ الگ متعدد اقسام قرار دیا گیا۔ مثلاً(۱) کسی شخص کا تنِ تنہا کسی روایت کا راوی ہونا (۲)کسی راوی کا کسی سند میں (۳)یا اس کے متن میں اضافہ کرکے بیان کرنے میں متفرد ہونا وغیرہ وغیرہ (علوم الحدیث، ص: : ۷۰ مختصرا و تبصرفٍ بحوالہ تدریب الراوی۱/۲۴۹۔۲۵۱) [4] غرض ’’تفرد ثقہ‘‘ اس حدیث کی روایت ہے جس کو ثقہ رواۃ میں سے کسی ایک نے ہی روایت کیا ہو۔ اس کی مثال مسلم کی یہ روایت ہے: ’’اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْرَئُ بِہٖ فِی الْاَضْحٰی وَ الْفِطْرِ بِــ﴿ق، و القرآن المجید﴾ ‘‘ وَ ﴿اقتربت الساعۃ﴾ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں سورئہ قاف اور ’’اقتربت الساعۃ‘‘ کی تلاوت کیا کرتے تھے۔‘‘ اس کو ثقات میں سے صرف حمزہ بن سعید نے روایت کیا ہے۔ جبکہ دوسرے راوی ضعیف ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۷۱) [5] غرض یہ وہ حدیث ہے جسے کسی شخص سے کسی ایک آدمی نے روایت کیا ہو، اگرچہ دوسرے سے کئی آدمیوں نے روایت کیا ہو۔ اس کی مثال سننِ اربعہ کی یہ حدیث ہے: ’’سفیان عن وائل بن داؤد عن ابنہ بکر عن الزہری عن انس ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم اَوْلَمَ عَلَی صَفِیَّۃَ بِسَوِیْقٍ وَ تَمَرٍ‘‘ …’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے پر ستو اور کھجور سے ولیمہ کھلایا‘‘۔ اس روایت میں تفرد اس اعتبار سے ہے کہ اس روایت کو وائل سے صرف سفیان نے اور وائل بن داؤد نے اس کو اپنے بیٹے بکر بن وائل سے تنہا ہی روایت کیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۷۱)