کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 51
روایت کرنے والا راوی ایک ہی ہو (یعنی غرابت اس حدیث کی سند کے اوّلین طبقہ میں ہو اور اولین طبقہ میں ایک راوی ہونے کے بعد آخر تک تمام طبقوں میں یا اکثر طبقوں میں بھی ایک ہی راوی ہو یا ایک یا دو طبقوں میں ایک سے زائد راوی ہوں )۔
۲۔ غریب مطلق کی مثال:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔)) [1]
’’بے شک اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے۔‘‘[2]
اس حدیث کو روایت کرنے والے صرف ایک صحابی ہیں اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یاد رہے کہ رواۃِ حدیث کا یہ تفرد کبھی تو سند کے آخر تک چلا جاتا ہے اور کبھی متفرد راوی سے آگے کئی راوی حدیث کو روایت کرتے ہیں ۔
ب: …غریب نسبی یا فرد نسبی:
۱۔ غریب یا فرد نسبی کی تعریف:… یہ وہ غریب حدیث ہے جس میں غرابت اس کی سند کے کسی درمیانی طبقے میں ہو۔[3]
یعنی اصلِ سند (اوّلین طبقہ) میں تو اس حدیث کے راوی ایک سے زائد ہوں پھر ان راویوں سے (آگے کسی طبقہ میں ) صرف ایک راوی اس حدیث کو روایت کرنے والا ہو (اور اولین طبقہ سے علی حسب الاختلاف صحابہ مراد ہوں یا تابعین، ان میں تو راوی ایک سے زیادہ ہوں البتہ بعد کے کسی طبقہ میں صرف ایک راوی ہو اگرچہ ایک ہی طبقہ میں ایک راوی ہو)۔
۲۔ غریب نسبی کی مثال:…غریب نسبی کی مثال وہ حدیث ہے جو مالک، زہری سے اور وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ [4]سے بیان کرتے ہیں :
[1] رواہ البخاری/کتاب الایمان حدیث رقم ۱، مسلم/ کتاب الامارۃ حدیث رقم ۱۵۵
[2] یہ مثال ان لوگوں کی رائے کے مطابق ہے جن کے نزدیک اوّلین طبقہ سے مراد حضرات صحابہء کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ جیسا کہ مصنّف موصوف حفظہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ البتہ جن کے نزدیک اوّلین طبقہ سے تابعین مراد ہیں انہوں نے مثال میں یہ حدیث پیش کی ہے:’’نَھَی النَّبِیُّ ؐ عَنْ بَیْعِ الْوِلَائِ وَ ھِبَتِہِ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء (یعنی غلام کو آزاد کرنے کے بعد آقا کا جو حق اس کے متعلق رہ جاتا ہے، اس) کو بیچنے اور ھبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اِس حدیث کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عبداللہ بن دینار تابعی نے تنہا روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ حدیث جس میں ایمان کے ستر سے زائد شعبے بیان کئے گئے ہیں ، اس حدیث کو حضرت ابوہریرہؓ سے صرف ابو صالح تابعی اور ابو صالح سے عبداللہ بن دینار نے روایت کیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۶۹)
[3] نزھۃ النظر ص۲۸۔
[4] علامہ اسعدی حفظہ اللہ نے یہ حدیث مالک عن الزہری عن علیّ رضی اللہ عنہ کی اسناد کے ساتھ بیان کی ہے جب کہ مولف موصوف علامہ طحّان حفظہ اللہ نے اسے مالک عن الزھری عن انس رضی اللہ عنہ کی اسناد کے ساتھ لکھا ہے۔ اسی لیے میں نے علامہ طحّان کی اسناد کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم ۔ ۔ دیکھیں ’’علوم الحدیث ص۷۰‘‘