کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 50
دونوں کو لغت و اصطلاح دونوں کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مترادف قرار دیا ہے، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
(دونوں پر کلام کرنے کے بعد) یہ کہا ہے کہ ’’اہلِ اصطلاح نے ان دونوں کے درمیان ان کے استعمال کی قلّت اور کثرت کے اعتبار سے فرق کیا ہے۔ لہٰذا یہ علماء ’’فرد‘‘ کا زیادہ تر اطلاق ’’فرد مطلق‘‘ پر جب کہ غریب پر اکثر ’’فرد نسبی‘‘ کا اطلاق کرتے ہیں ۔ [1]
۴۔ غریب کی اقسام:
جس طبقہ میں راوی ایک ہے، اس کے اعتبار سے حدیث غریب کی دو اقسام ہیں ، ’’غریب مطلق‘‘ اور ’’غریب نسبی۔‘‘ (ذیل میں دونوں کی تعریف اور مثال پیش کی جاتی ہے)۔
الف: ’’غریب مطلق‘‘ یا ’’فرد مطلق‘‘:
۱۔ غریب یا فرد مطلق کی تعریف:
یہ وہ حدیث ہے جس کی ’’اصل سند‘‘ میں ’’غرابت‘‘[2] ہو۔ یعنی وہ حدیث جس کی ’’اصلِ سند‘‘[3] میں اس حدیث کو
[1] نزھۃ النظر ص۲۸(طحّان) یاد رہے کہ غریب کا یہ دوسرا نام ’’فرد‘‘ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے رکھا ہے، اس اعتبار سے غریب کی دو قسموں ’’غریب مطلق اور ’’غریب نسبی‘‘ کو علی الترتیب ’’فرد مطلق‘‘ اور ’’فرد نسبی‘‘ کہیں گے۔ جن کا تعارف اقسام کے بیان میں آ رہا ہے۔
(علوم الحدیث، ص: ۶۷ بتصرفٍ) اور یاد رہے کہ یہ فرق جب فعل کا استعمال نہ ہو، رہے دونوں سے متعلقہ افعال یعنی تَفَرُّد اور اَغْرَبَ وغیرہ تو ان کے استعمال میں فرق نہیں کیا جاتا۔ جب کہ دوسرے محققین جیسے ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ اور نووی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے دونوں میں فرق کیا ہے اور مطلق و نسبی کو ’’فرد‘‘ کی اقسام بتلایا ہے غریب کی نہیں ۔(علوم الحدیث، ص: ۶۸ بتصرف بحوالہ ’’تدریب الراوی۱/۱۴۹،۱۵۰)
[2] سند حدیث کے کسی ایک طبقہ میں ایک راوی کے ہونے کے وصف اور کیفیّت کو ’’غرابت‘‘ کہتے ہیں (علوم الحدیث بتصرفٍ، ص: ۶۷)
[3] ’’اصلِ سند‘‘ سے مراد ’’اولین طبقہ‘‘ ہے۔ اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ اوّلین طبقہ سے کون لوگ مراد ہیں ۔ حضرات صحابہ یا تابعین۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی ذکر کردہ توضیح و مثال سے اس بات کی تائید بھی ہوتی ہے کہ اس سے ’’طبقہء تابعین‘‘ مراد ہے البتہ صاحبِ تیسیر علامہ طحّان کا خیال ہے کہ اس سے ’’طبقہء صحابہ‘‘ مراد ہے اور انہوں نے اپنی کتاب کے حاشیہ میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پر نقد بھی کیا ہے۔(جیسا کہ ذیل میں بتلایا جا رہا ہے) اور انہوں نے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی ذکر کردہ ’’تعریفِ غریب‘‘ کو اپنے رائے کے حق میں بنیاد بنایا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۶۸۔۶۹ مع الحاشیہ رقم ۲ ملخصاً و تبصرف بحوالہ نزھۃ النظر مع حاشیہ ص۲۷۔۲۸) اب ذیل میں ’’اصل سند‘‘ پر علامہ طحّان کا حاشیہ ملاحظہ کیجیے!
’’اصل سند‘‘ سے مراد حدیث کی وہ طرف ہے جس میں صحابی ہو اور صحابی طبقات سند کا ایک طبقہ ہے یعنی جب حدیث کی روایت میں صحابی متفرد اور اکیلا ہو۔ اس وقت اس حدیث کو غرابت مطلقہ کے ساتھ ’’غریب‘‘ کہتے ہیں اور ’’اصلِ سند‘‘ کی شر ح کرتے ہوئے ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کہ ’’اصلِ سند‘‘ سے مراد سند کا وہ حِصہ اور مقام ہے جس پر سند کا مدار ہو اور وہ سند کا مرجع ہو چاہے اس کے متعدد طرق ہوں اور یہ سند کی وہ طرف ہے جس میں صحابی ہو‘‘ سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے جو یہ کہا ہے کہ، ’’ صحابی کا تفّرد ’’غرابت‘‘ نہ سمجھا جائے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابی میں کوئی بات باعثِ قدح نہیں پائی جاتی یا یہ کہ صحابہ سب کے سب عدول ہیں ‘‘ میرا خیال ہے کہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی (اپنی مذکورہ بالا عبارت سے) یہ مراد نہیں واللہ اعلم۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے خود غریب کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ’’غریب وہ حدیث ہے جس کے طبقاتِ سند میں سے کسی طبقہ میں اس حدیث کو روایت کرتے وقت اس کا راوی متفرد اور اکیلا ہو‘‘ یعنی چاہے یہ تفرد طبقۂ صحابہ میں ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ صحابہ بھی طبقات سند میں سے ایک طبقہ ہیں ۔ والعلم عند اللہ۔ بہرحال ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی بعض علمائے حدیث کی رائے ہے۔ (محمود طحّان)