کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 49
مقصد سوم حدیث غریب ۱۔ حدیث غریب کی تعریف: لغوي تعریف: …یہ لفظ بھی صفتِ مشبّہ کا صیغہ ہے اور اس کا معنی ’’اکیلا‘‘ یا اعزہ و اقرباء سے دور پردیسی(اور اجنبی اور نامانوس) ہے (اور اس کی جمع ’’غرائب‘‘ آتی ہے)۔ اصطلاحي تعریف[1]: … غریب وہ حدیث ہے جس کو (اسناد کے طبقہ میں کہی نہ کہیں ) صرف ایک راوی نے روایت کیا ہو۔ ۲۔ ’’غریب‘‘ کی تعریف کی شرح: یعنی غریب وہ حدیث ہے جسے کم از کم ایک شخص نے روایت کیا ہو۔ چاہے اس کی اسناد کے جملہ طبقات میں سے ہر طبقہ میں اسے ایک ہی شخص نے روایت کیا ہو اور چاہے کسی ایک طبقے میں اس کا راوی ایک ہو اور اس وقت باقی طبقات میں اگر راوی ایک سے زیادہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ (اس حدیث میں ) اعتبار ’’کم‘‘ کا ہے۔[2] ۳۔ حدیث غریب کا ایک دوسرا نام حدیث ’’فرد‘‘: اکثر علماء نے حدیث غریب کو ایک دوسرے نام سے بھی یاد کیا ہے اور وہ نام ہے حدیث ’’فرد‘‘ ان کے نزدیک ’’غریب‘‘ اور ’’فرد‘‘ دونوں نام ہم معنی اور مترادف ہیں ۔ جب کہ بعض دوسرے علماء نے انہیں ایک دوسرے کے مغایر بتلایا ہے اور انہوں نے دونوں ناموں کو حدیث کی الگ الگ مستقل قسم قرار دیا ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان
[1] علامہ اسعدی نے اس موقع ایک نہایت ہی پرمغز خلاصہ لکھا ہے جس کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں ۔ اگرچہ اس خلاصہ میں مذکور چند مندرجات اپنے اپنے مقام پر مصنّف موصوف کی کتاب میں بھی آجائیں گے۔ علامہ اسعدی لکھتے ہیں :’’اصطلاح کے اعتبار سے حدیثِ غریب کی دو تعریفات ہیں ، اس لیے غریب کا اطلاق حدیث کی دو الگ الگ اقسام پر ہوتا ہے۔ جن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان میں سے ایک کو ہم ’’غریبِ اسنادی‘‘ اور دوسری کو ’’غریبِ لغوی‘‘ کہہ سکتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ہر دو اقسام کی بنیاد ’’غریب‘‘ کے دونوں لغوی معانی میں سے ایک پر ہے۔ چناں چہ ’’غریب اسنادی‘‘ کی بنیاد پہلے معنی یعنی ’’منفرد اور اکیلے‘‘ پر ہے اور ’’غریب لغوی‘‘ کی بنیاد دوسرے لغوی معنی یعنی ’’اجنبی اور نامانوس‘‘ پر ہے۔(علوم الحدیث، ص: ۶۶ ملخصاً) ان میں سے ہر ایک کی تفصیل علامہ طحّان دامت برکاتہم کی تصنیف لطیف ’’تیسیر المصطلح‘‘ میں آ رہی ہے۔ [2] ’’مطلب یہ ہے کہ غریب کی سند کے جتنے طبقات ہوں کم از کم ایک طبقہ میں تنہا ایک آدمی روایت کرنے والا ہو۔ رہے باقی طبقات تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باقی یا اکثر میں ایک سے زائد راوی ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام طبقات میں ایک ہی راوی ہو، اور ایک راوی والا طبقہ اولین بھی ہو سکتا ہے اور درمیانی اور بعد کا بھی‘‘ (علوم الحدیث، ص: ۶۷)