کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 44
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کو یوں نہیں اٹھالیں گے کہ اس کو علماء کے سینوں سے نکال لیں گے بلکہ اس علم کو علماء کے اٹھالینے سے اٹھالیں گے یہاں تک کہ (رب تعالیٰ روئے زمین پر) کسی عالم کو باقی نہ چھوڑیں گے تو (پھر) لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے۔ پس ان سے (مسائل دینیہ کی بابت) سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دیتے پھریں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی بے راہ کریں گے۔‘‘
پس اس حدیث کو اسناد کے ہر طبقہ میں تین یا تین سے زیادہ رواۃ نے روایت کیا ہے، اسی بنا پر اس حدیث کا نام ’’مشہور‘‘ ہے۔
۳۔ اَلْمُسْتَفِیْضُ:
لغوي تعریف: …یہ ’’اِسْتَفَاضَ‘‘ کا اسم فاعل ہے( جس کا معنی عام ہونا اور پھیلنا ہے) اور یہ ’’فَاضَ الْمَائُ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی پانی کا کثرت کے ساتھ پھیلنا ہے اور اس حدیث کا یہ نام (لوگوں میں )اس کے پھیلنے کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔
اصطلاحي تعریف: …حدیثِ مستفیض کی اصطلاحی تعریف میں اختلاف ہے، اس بابت تین اقوال ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ یہ ’’مشہور‘‘ کے ہم معنی و مترادف ہے۔
۲۔ یہ ’’مشہور‘‘ سے اخصّ ہے۔ کیوں کہ ’’خبرِ مستفیض‘‘ میں یہ شرط ہے کہ اس کی اسناد کے دونوں طرف (یعنی اس کی ابتداء اور انتہاء دونوں ) میں (رواۃِ حدیث کی تعداد میں ) برابری ہو، جب کہ خبر مشہور میں یہ قید اور شرط نہیں ۔
۳۔ یہ مشہور سے عام ہے۔ یعنی یہ تیسرا قول دوسرے قول کے برعکس ہے۔ یعنی مذکورہ قید کہ اطرافِ اسناد میں رواۃ حدیث کی تعداد برابر ہو مشہور میں تو معتبر ہے جب کہ ’’مستفیض‘‘ میں نہیں ۔
۴۔ مشہور غیر اصطلاحی:
اس سے مراد وہ خبر ہے جو زبان زد خلائق ہو، چاہے اس میں مذکورہ شروط معتبر نہ ہوں ۔[1] چناں چہیہ حدیث درج ذیل تین صورتوں پر مشتمل ہو سکتی ہے:
۱۔ جس کی صرف ایک سند ہو(یعنی صرف ایک شخص سے ہی منقول ہو)۔
۲۔ اور جس کی (کبھی) ایک سے زائد اَسناد ہوں ۔
۳۔ اور کبھی سرے سے اس کی کوئی اِسناد ہی نہ ہو۔
۵۔مشہور غیر اصطلاحی کی اقسام:
مشہور غیر اصطلاحی کی متعدد اقسام ہیں (اور یہ اقسام ان طبقات کے اعتبار سے ہیں جن کے درمیان اس کی شہرت
[1] اس کو ’’مشہور عرفی‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۶۳)