کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 39
احوال کی تحقیق و تفتیش کی مطلق ضرورت نہیں ہوتی۔ [1] ۵۔ تواتر کی اقسام: خبر متواتر کی دو قسمیں ہیں : لفظی اور معنوی الف:… متواترِ لفظی: یہ وہ خبر ہے جس کے الفاظ و معانی دونوں متواتر ہوں (کہ ہر راوی نے وہ خبر یکساں الفاظ کے ساتھ روایت کی ہو)جیسے: مثلاً یہ حدیث تواترِ لفظی کی مثال ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:(( مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔)) [2] ’’جس آدمی نے جان بوجھ کر جھوٹ کو میری طرف منسوب کیا وہ جہنم میں اپنا (ایک) ٹھکانا بنالے۔‘‘ اس حدیث کو ستر سے اوپر صحابہ رضی اللہ عنہم نے یکساں الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، جب کہ سند کے بعد کے طبقات میں یہ تعداد بڑھتی چلی گئی ہے۔[3] ب: …متواترِ معنوی: یہ وہ خبر ہے جس کا معنی تو متواتر ہو البتہ اس کے الفاظ متواتر نہ ہوں (کہ سب رواۃ نے اس خبر کو یکساں الفاظ کے ساتھ نقل نہ کیا البتہ معانی سب کے الفاظ کے یکساں ہوں )۔ جیسے: مثلاً دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کی بابت تقریباً سو احادیث جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں جن میں سے ہر حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں : (( اَنَّہُ رَفَعَ یَدَیْہِ فِی الدُّعَائِ)) ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگتے وقت اپنے ہاتھوں کو اٹھایا۔‘‘ مگر سب احادیث میں مختلف مواقع میں ایسا کرنے کا ذکر ہے۔ اس لحاظ سے (اگر) ہر موقع (کا جائزہ لیا جائے تو وہ) حدِ تواتر کو نہیں پہنچتا، البتہ ان سب مواقع میں قدر مشترک یہ ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے وقت دستِ مبارک کو اٹھایا تھا۔‘‘ پس اپنے طرق کے مجموعہ کے اعتبار سے ’’رفع الیدین عند الدعاء‘‘ والی حدیث متواتر ہے۔[4]
[1] نیز اس کے مضمون کا انکار اور ردّ کفر ہوتا ہے۔ (علوم الحدیث، ص:۵۵ بحوالہ نزھۃ النظرص۲۱۔۲۲) اور ہر کس و ناکس بلا تحقیق اس کے ماننے پر مجبور ہوتا ہے(ص۶۱) [2] رواہ البخاری/کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ۔ ۲۰۲۱ حدیث رقم ۱۱۰ بلفظہ و رواہ مسلم/ کتاب الزھد باب التشبۃ فی الحدیث، و حکم کتابۃ العلم ۴/ ۲۲۹۸ حدیث رقم ۷۲ بلفظہ و رواہ ابو دؤد، والترمذی، و ابن ماجہ، والدارمی، واحمد۔ [3] ’’متواتر لفظی‘‘کو ’’متواتر اسنادی‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص:۵۶ بحوالہ نزھۃ النظر ص۲۲) [4] تدریب الراوی۲/۱۸۰(علامہ طحّان)اور ایسی حدیث کو ’’متواتر مشترک ‘‘ بھی کہہ دیا کرتے ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۵۶ بحوالہ تدریب الراوی۲/۱۸۰)