کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 38
(۱) اس خبر کو ان گنت اور بے شمار لوگوں نے روایت کیا ہو( جن کی تعداد حدِ شمار سے باہر ہو) البتہ ان کی کثرت کی کم از کم کتنی تعداد ہو؟ اس میں مختلف اقوال ہیں ۔ مگر مختار قول ان کے دس ہونے کا ہے۔[1] (۲) رواۃ حدیث کی یہ کثرت (شروع) سند (سے لے کر اخیر تک) کے تمام طبقات میں پائی جائے۔ (۳) ان سب کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔ [2]
(۴) اور روایانِ حدیث کی خبر کا تعلق حسّ سے ہو(یعنی امور حسیّہ سے ہوکہ وہ کوئی دیکھی اور سنی جانے والی بات ہونا کہ عقلی و قیاسی ہو)۔
جیسے خبر کے رواۃ یہ کہیں ’’ہم نے سنا، یا ہم نے دیکھا، یا ہم نے چھو کر دیکھا وغیرہ وغیرہ‘‘ البتہ جب ان کی دی گئی خبر کا تعلق امورِ عقلیہ سے ہو۔ جیسے مثلاً وہ ’’حدوثِ عالم‘‘ کی خبر دیں ، تو اس وقت (ان کے اتفاق اور کثرتِ تعداد کو ’’تواتر‘‘ اور) ان کی خبر کو ’’متواتر‘‘ نہ کہیں گے۔
۴۔ تواتر کا حکم:
خبر متواتر ’’علمِ ضروری‘‘[3]یعنی (قطعی اور) یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے کہ آدمی اس کی قطعی اور یقینی تصدیق پر یوں مجبور ہوتا ہے جیسے وہ شخص مجبور ہوتا ہے جو خود اس امر کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اسے (اپنے مشاہدہ کے وقت) اس امر کی تصدیق میں مطلق تردّد نہیں ہوتا، اسی طرح خبر متواتر ہے (کہ آدمی اس کی تصدیق پر مجبور ہوتا ہے اور اس بات کے قطعی اور یقینی ہونے میں اسے ذرا تردّد نہیں ہوتا) اسی لیے خبر متواتر ہر اعتبار سے مقبول ہی مقبول ہوتی ہے اور اس کے رواۃ کے
[1] تدریب الراوی ج۲ ص۱۷۷(علامہ طحّان)
کثرتِ رواۃ کی بابت اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ وہ تین سے زائد ہوں لیکن کم از کم کتنے ہوں ، اس میں اختلاف ہے۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں عدمِ تعیین کو ’’صحیح‘‘ اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’’اصحّ‘‘ کہا ہے۔ اگرچہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’الفوائد المتکاثرہ فی الاخبار المتواترہ‘‘ میں ’’دس‘‘ کے قول کو مدار تحقیق قرار دیتے ہوئے تمام وہ روایات جمع کردی ہیں جن کو دس یا دس سے زائد صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔(علوم الحدیث، ص:۵۴-۵۵)
[2] اور اس کی صورت یہ ہے کہ یہ رواۃِ حدیث مختلف امصار و بلاد کے ہوں ، ان کے احوال و کوائف مختلف ہوں اور ان کے مذاہب و مسالک بھی جدا جدا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اب اس بنا پر کبھی ایسا بھی ہوگا کہ رواۃ کی تعداد تو کثیر ہو مگر اس خبر کے لیے متواتر کا حکم ثابت نہ ہو اور کبھی نسبتاً عدد رواۃ تو کم ہو مگر خبر کے لیے تواتر کا حکم ثابت ہو جائے اور اس کا مدار ، رواۃ کے احوال پر ہے۔(علامہ طحّان)
بہرحال اصولِ فقہ اور اصول حدیث کی کتابوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تواتر کا مدار محض کثرتِ رواۃ پر ہی نہیں ۔ بلکہ بنیادی چیز سب رواۃ کا عادۃً جھوٹ پر متفق ہونے کا محال ہونا ہے۔ جیسا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شرح النزھۃ ص۲۴‘‘ میں اس کی تصریح کی ہے(اور علامہ طحّان کے مذکورہ بالا حاشیہ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے)۔
غرض تواتر کی شروط میں راویوں کی کثرت کے ساتھ ساتھ ان کے اختلاف اوطان اور عدالت (یعنی دین کے اعتبار سے لائق اطمینان ہونے) کی وجہ سے عادۃً جھوٹ پر ان کے اتفاق کا محال ہونا بھی ہے۔(علوم الحدیث، ص:۵۵ ملخصاً بحوالہ حسامی ص۶۷، نور الانوار ص۱۷۶، قمر الاقمار ص۱۷۶)
[3] اس کو ’’علمِ بدیہی‘‘ بھی کہتے ہیں (علوم الحدیث: ص۶۱)