کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 33
میں کلام کے سند سے اگلے حصے کو ’’متنِ حدیث‘‘ کہتے ہیں )۔
۱۰۔ اَلْمُسْنَدُ:
معني لغوي: …یہ ’’اَسْنَدَ الشَّيْئَ اِلَیْہِ‘‘ یعنی ’’اس کی طرف منسوب کیا‘‘، اور ’’اس کی طرف نسبت کی‘‘ سے اسمِ مفعول کا صیغہ ’’اَلْمُسْنَدُ‘‘ ہے۔
معني اصطلاحي : …اصطلاح میں لفظ ’’المسنَد‘‘ کا اطلاق تین معانی پر ہوتا ہے:
۱۔ ہر وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی مرویات و احادیث کو علیحدہ علیحدہ جمع کیا گیا ہو۔
۲۔ وہ حدیث جو مرفوع ہو اور سند کے اعتبار سے متصل ہو۔[1]
۳۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ مسنَد سے مراد ’’سند‘‘ ہو اور اس معنی میں لفظ ’’المسنَد‘‘ مصدر میمی[2] ہوگا( یعنی اس کی میم لفظ ’’المسنَد‘‘ کے اسمِ مفعول ہونے پر نہیں بلکہ ’’مصدر‘‘ ہونے پر دلالت کرے گی اور اس صورت میں یہ لفظ ’’سند‘‘ کا مترادف و ہم معنی ہوگا۔ )
۱۱۔ اَلْمُسْنِدُ (نون کے کسر کے ساتھ):
’’مُسْنِد‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو سند کے ساتھ حدیث کو روایت کرے چاہے اس کے پاس حدیث کا علم ہو یا نہ ہو اور صرف روایات کا ہی علم ہو۔[3]
۱۲۔ اَلْمُحَدِّث:
’’مُحدِّث‘‘ اس شخص (اور عَالِم) کو کہتے ہیں جو (ہروقت) علمِ حدیث کی روایت و درایت میں مشغول رہتا ہو اور وہ روایات اور ان کے راویوں کے احوال کے بڑے حِصّے سے باخبر ہو۔ (یعنی وہ محض الفاظِ حدیث کا ہی ناقل نہ ہو بلکہ اسے حدیث کے الفاظ و معانی دونوں کا علم ہو)۔
۱۳۔ اَلْحَافِظُ[4]
(اور) حافظ (کے اصطلاحی معنی) میں دو اقول ہیں :
[1] مرفوع یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو اور متّصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام ناقلین کا نام مذکور ہو۔ (علوم الحدیث، ص:۲۱) اور علامہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ ’’مسند‘‘ کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ، ’’المسنَد (من الحدیث) وہ حدیث جس کی سند (سلسلہء رواۃ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔ (القاموس الوحید ص۸۰۸۔۸۰۹) ۔
[2] وہ میم جو کسی کلمہ کے مصدر ہونے پر دلالت کرے اسے مصدرِ میمی کہتے ہیں (از افادات استاد محترم حضرت مولانا شبیر احمد صاحب حضروی دامت برکاتھم) اور ثلاثی مجرد سے مصدر میمی کا وزن ’’مَفْعَل‘‘ ہے(مصباح اللغات ص۷ کالم نمبر ۲) اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ثلاثی مزید فیہ سے مصدر میمی کا میم مضموم ہو۔ جیسے باب افعال سے مذکورہ لفظ ’’اَلْمُسْنَدُ‘‘ کا میم مضموم۔ جیسے بابِ افعال سے مذکورہ لفظ ’’اَلْمُسْنَدُ‘‘ کا میم مضموم ہے۔ ’’کما ھو مصرّح فی کتب الصرف‘‘
[3] یہ اصطلاحی معنی ہے اور ’’المُسْنِد‘‘ کا لغوی معنی ’’نسبت کرنے والا، سہارا دینے والا‘‘ ہے۔ (علوم الحدیث، ص:۲۱)
[4] حافظ کا لغوی معنی ’’یاد کرنے والا، محافظ، پہرہ دار، حافظِ قرآن اور سیدھا راستہ ہے اور اصطلاح میں اس محدِّث کو حافظ کہتے ہیں جسے احادیثِ نبویہ کی بہت بڑی تعداد زبانی یاد ہو اور اس کی جمع حفاظ آتی ہے۔(القاموس ص۳۵۶ کالم نمبر ۲)