کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 31
بنیادی تعریفات
(یا مبادیاتِ فن)
۱۔ عِلْمُ الْمُصْطَلَحِ:
یہ ان بنیادی اصول و قواعد اور ضوابط کا علم ہے جن کے ذریعے سند و متن (یا دوسرے لفظوں میں راوی اور مروی) کے ان احوال کا علم ہوتا ہے جن کی بِنا پر حدیث کو ردّ یا قبول کیا جاتا ہے۔
۲۔ موضوع:
اس علم و فن کا موضوع مقبول اور مردود ہونے کے اعتبار سے ’’سند اور متن‘‘ ہے۔
۳۔ ثمرہ:
اس علم کا ثمرہ اور نتیجہ یہ ہے کہ صحیح احادیث کو سقیم احادیث سے ممتاز کرنے اور پہچاننے کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔(جس سے لائقِ عمل اور غیر لائقِ عمل احادیث میں امتیاز حاصل ہو جاتا ہے)۔
۴۔ الحدیث:
معني لغوي:…نیا(اور گفتگو اور بات چیت) اور اس کی جمع ’’احادیث‘‘ آتی ہے جو خلافِ قیاس ہے۔[1]
معني اصطلاحي: …وہ قول یا فعل یا تقریر یا حال جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ہو اسے اصطلاح میں حدیث کہتے ہیں ۔ [2]
[1] قیاس کا تقاضا تو لفظ حدیث کی جمع کا ’’جمع مکسّر‘‘ کے کسی وزن پر آنا ہے ناکہ ’’جمع منتہی الجموع‘‘ کے وزن پر۔ چناں چہ لفظ حدیث کی جمع کا احادیث کے وزن پر آنا جو ’’افاعیل‘‘ کا ’’جمع منتہی الجموع‘‘ کا وزن ہے، خلافِ قیاس ہے۔
[2] اور تقریر سے مراد کسی امر کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر سکوت فرمانا ہے(نور الانوار ص۱۷۵ حاشیہ رقم ۲۴) تقریر سے مراد کسی امر واقعہ کے سامنے یا علم میں آنے پر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا ہے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی، ایسے ہی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جو عظمت ہے اس کی بنا پر ان کی خاموشی اس امر کی تائید کی دلیل ہے۔ ’’حاشیہء اسحاق برنزھۃ النظرص ‘‘ و ’’نظامی شرح حسامی ص۶۶‘‘
دوسرے لفظوں میں ’’تقریر‘‘ کو ’’خاموش تائید‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔
اور ’’حال‘‘ سے جسمانی و اخلاقی احوال مراد ہیں یعنی حلیہء مبارکہ اور اخلاق و عادات وغیرہ خواہ ان کا تعلق بیداری کی حالت سے ہو یا نیند کی حالت سے۔ (شرح القاری ص۱۶ و امعان النظر ص۱۲)
دیکھیں ’’علوم الحدیث ص۱۸۔‘‘