کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 304
۲۔ راوی عربی ہو یا عجمی وہ کس بات کی طرف منسوب ہوتا ہے؟:
(دوسرے لفظوں میں ہم اسے مدارِ نسبت کہہ سکتے ہیں چوں کہ عرب و عجم کی تہذیبی اقدار میں نمایاں فرق رہا ہے اس لیے دونوں میں نسبت کا معیار اور مدار بھی الگ الگ ہے، جس کی تفصیل ذیل مین درج کی جاتی ہے):
الف:… قدیم زمانہ میں عرب اپنے قبائل کی طرف منسوب ہوا کرتے تھے کیوں کہ اکثر عرب بدوی اور خانہ بدوش ہوتے تھے اور ان کا اپنا قبیلہ کے ساتھ ربط و تعلق بہ نسبت وطن اور بلاد و امصار کے ساتھ تعلق کے بے حد مضبوط ہوتا تھا، لیکن جب اسلام آیا اور (اس کی برکت سے) شہروں اور بستیوں میں آباد ہونے کی عادت ان پر غالب آنے لگی (کہ اب دربدر خانہ بدوشانہ زندگی گزارنے کی بجائے، ان لوگوں نے ایک جگہ جم کر رہنا شروع کیا) تو اب یہ لوگ بھی (قبائل اور قوموں کی بجائے) شہروں اور بستیوں کی طرف منسوب ہونے لگے۔
ب:… رہ گئے عجمی تو یہ لوگ زمانۂ قدیم سے شہروں اور بستیوں کی طرف ہی منسوب چلے آتے ہیں ۔
۴۔ جس شخص نے اپنا وطن بدل لیا ہو وہ اپنا انتساب کیوں کر بیان کرے؟
الف:… جو (شخص پہلے ایک وطن میں رہتا تھا، پھر اس نے ایک دوسرے شہر کو اپنا مستقل وطن بنالیا اور اب وہ) یہ چاہتا ہو کہ اپنے کو دونوں شہروں کی طرف منسوب کرے تو اسے چاہیے کہ پہلے ہو اپنا پہلا وطن ذکر کرے پھر دوسرا جس کی طرف وہ منتقل ہوگیا ہے اور مناسب یہ ہے کہ دونوں وطنوں کے ناموں کے درمیان لفظ ’’ثُمَّ‘‘ لکھے۔ چناں چہ (مثلاً) جو پیدا تو حلب میں ہوا، پھر مدینہ منورہ منتقل ہو گیا وہ اپنی نسبت یوں بیان کرے، ’’فلان الحلبیّ ثم المدنی‘‘ اکثر لوگ اسی پر عامل ہیں ۔
ب: …اور جو ایسا نہ کرنا چاہے وہ جس شہر کی طرف مرضی چاہے خود کو منسوب کرے، مگر ایسا کم ہوتا ہے۔
۵۔ جو شخص کسی شہر کے تابع بستی میں رہتا ہو وہ اپنا انتساب کیوں کر بیان کرے؟
(کہ بستی کا نام لے یا شہر کا) (دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص کسی ذیلی اور ماتحت مقام میں رہتا ہو وہ اپنی نسبت کیسے بیان کرے؟ اسے اس باب میں تین اختیار ہیں جن کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے) :
الف: …چاہے تو خود کو اسی (ذیلی اور ماتحت) بستی کی طرف منسوب کرے۔
ب: … چاہے تو اس شہر کی طرف خود کو منسوب کرلے جس کے زیرِ ولایت یہ بستی ہے۔
ج: …اور چاہے تو خود کو اس اقلیم اور ملک کی طرف کرلے جس کا یہ شہر ہے۔ اس تفصیل کو ایک مثال سے سمجھئے!
مثلاً ایک شخص ’’باب‘‘ نامی بستی کا باشندہ ہو جو ’’حلب‘‘ شہر کے ماتحت ہو اور حلب ’’ملکِ شام‘‘ کا شہر ہے۔ اب یہ شخص اپنی نسبت بیان کرتے ہوئے خود کو ’’بابی‘‘ بھی کہہ سکتا ہے اور ’’حلبی‘‘ اور ’’شامی‘‘ بھی۔
۶۔ ایک شخص کسی مقام پر کتنی مدت رہے کہ وہاں کا باشندہ کہلانے لگے؟:
(اس کا جواب ہے) چار سال اور یہ عبداللہ بن مبارک کا قول ہے۔