کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 297
کی ’’تسہیل‘‘[1]کی جاتی ہے۔
ب: …اصطلاحی معنیٰ: اور (محدثین کی اصطلاح میں ) تاریخ یہ اس وقت کو بیان کرنا ہے جس میں ولادت، وفات اور دوسرے حالاتِ زندگی کو ضبط کیا جاتا ہے۔[2]
۲۔ مذکورہ بحث میں تاریخ سے کیا مراد ہے؟:
یہاں تاریخ سے ہماری مراد رواۃ کی ولادت، مشائخ سے ان کے احادیث سننے، بعض بلا دو امصار میں ان کے جانے اور ان کے وفات پانے کے زمانہ کی معرفت حاصل کرنا ہے۔
۳۔تاریخ کی معرفت کی اہمیت و فائدہ:
معرفت تاریخ رواۃ بڑی اہمیت کا مالک فن ہے۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ (اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے) فرماتے ہیں ، ’’جب رواۃ نے دروغ گوئی سے کام لینا شروع کردیا تو ہم نے ان کے خلاف علم تاریخ کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا۔‘‘
علم تاریخ کی معرفت کا (سب سے اہم) فائدہ یہ ہے کہ سندِ متّصل اور سندِ منقطع (میں امتیاز اور ان) کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔
چناں چہ جب کچھ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں سے روایت کی ہے تو تاریخ پر نظر دوڑائی جاتی ہے جس سے یہ بات عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ وہ لوگ مروی عنہم کی وفات کے مدتوں بعد ان سے روایت کرنے کے مدعی بن بیٹھے ہیں ۔‘‘
۴۔ اہم ترین چند تاریخی باتوں کا تذکرہ:
الف: …رسالت مآب ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو جلیل القدر رفقاء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بابت صحیح قول یہ ہے کہ ان تینوں حضرات نے تریسٹھ سال کی عمر پائی۔
(اب ذیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کی تاریخ ہائے وفات کی تفصیل ملاحظہ کیجیے!)
۱۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بروز پیر بارہ ربیع الاوّل ۱۱ ھ کو بوقت چاشت اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔
۲۔ حضرتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جمادی الاولی ۱۳ ھ کو اس دارِ فانی کو الوداع کہا۔
[1] ’’ہمزہ کی تسہیل ‘‘ یہ ہے کہ ’’اگر ہمزہ متحرک حرفِ متحرک کے بعد ہو تو اس میں ’’بین بین قریب ‘‘ اور ’’بین بین بعید‘‘ دونوں جائز ہیں ۔ آگے ہمزہ کو اپنے مخرج اور اس کی حرکت کے موافق حرفِ علت کے مخرج کے درمیان پڑھنا’’بین بین قریب ‘‘ ہے اور ہمزہ کے مخرج اور اس کے ما قبل کی حرکت کے موافق حرفِ علت کے مخرج کے درمیان پڑھنا بین بین بعید ہے۔ ’’بین بین‘‘ کو ’’تسہیل ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ (علم الصیغہ اُردو، ص: ۵۴ مطبوعہ ادارۃ المعارف ، کراچی) اور اس کی صحیح نوعیت اور صورت قراء ہی بتلا سکتے ہیں ۔
[2] دیکھیں ’’علوم الحدیث لا بن الصلاح‘‘ ص۳۸۰ (طحّان)